لکیر کے فقیر لیڈرس !

قومی سیاسی پارٹیاں ہوں یا علاقائی جماعتیں انتخابات کی تیاری کے لیے ایک بالکل نیا رجحان اپنا لیا گیا ہے ۔ ایک دوسرے پر تنقیدیں یوں تو ہمیشہ سے ہی ہوتی رہی ہیں ۔ انتخابات کے دوران الزامات کے تیر چلائے جاتے ہیں ۔ لیکن اس مرتبہ کرناٹک اسمبلی کے انتخابات مرکز کی حکمراں پارٹی کے لیے وقار کا مسئلہ بنے ہوئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کا وزیراعظم ادنیٰ پارٹی ورکر کے طور پر کرناٹک میں انتخابی مہم کے لیے وقف ہوگیا ہے ۔ کانگریس کے اقتدار میں ہونے والے یہ انتخابات بی جے پی کے لیے لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ثابت ہورہے ہیں ۔ اس لیے وزیراعظم نے اپنی ساری توانائی جھونک دی ہے ۔ رائے دہندوں کو آمادہ یا خوف زدہ کرنے والی تقاریر کا سہارا لے کر بی جے پی قائدین کا نگریس کے امکانات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کررہے ہیں ۔ وزیراعظم کی انتخابی تقاریر اور مقامی عوامی مسائل میں کوئی ربط ہی نظر نہیں آتا ۔ پھر بھی ایک قومی لیڈر کی بات میں سچائی کا فقدان پایا جائے تو یوں محسوس ہونا فطری امر ہے کہ اس لیڈر کے دماغ اور زبان کا ربط منقسم ہوچکا ہے ۔ بے مفہوم اور بے ربط کی باتوں سے کرناٹک کے رائے دہندوں کا کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ ان کی تقاریر پر ردعمل ظاہر کرنے والے یا وزیراعظم کی انتخابی مہم کا تعاقب کرنے والے صدر کانگریس راہول گاندھی نے اپنی انتخابی مہم کا گراف مضبوطی سے تیار کرلیا ہے ۔ انہوں نے وزیراعظم مودی کی تقاریر اور ان کی حکمرانی کے فرائض میں پائے جانے والے فرق کو عوام کے سامنے نمایاں کرتے ہوئے یہ نشاندہی کی کہ وزیراعظم نریندر مودی اور صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کو بیروزگار برہم نوجوانوں نے ووٹ دے کر اقتدار تک پہونچایا تھا مگر اب یہ دونوں ان بیروزگار برہم نوجوانوں کے لیے ’ لکیر کے فقیر ‘ لیڈرس ثابت ہورہے ہیں ۔ امریکہ میں ٹرمپ نے روزگار کے مسائل حل کرنے کے بجائے روزگار کے مواقع ختم کرنے کی پالیسیوں کو نافذ کرنا شروع کیا تو ہندوستان میں وزیراعظم کی حیثیت سے نریندر مودی نے اپنی حکومت کو عدم کارکردگی کا اثاثہ بناکر چھوڑ دیا ۔ راہول گاندھی نے جب مسائل اور کارکردگی کی بنیاد پر ٹرمپ اور مودی کو حاشیہ بردار بنایا تو عوام کو ان کی باتوں میں سچائی کی جھلک دکھائی دینا یقینی ہے ۔ وزیراعظم کا خواب رکھنے والے راہول گاندھی 2019 کے انتخابات پر نظر رکھ کر کرناٹک میں اپنا مضبوط و کشادہ میدان تیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ انہوں نے بی جے پی اور آر ایس ایس کی ساجھے داری میں فروغ پانے والے سیاسی ماحول کو ملک کی ترقی کے لیے خطرناک قرار دیا ہے کیوں کہ ہندوستانی نوجوان غم و غصہ کا شکار اس لیے ہے کیوں کہ یہاں روزگار پیدا کرنے کا سسٹم ہی نہیں ہے ۔ ہندوستانی نظام اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ ان نوجوانوں کو بنیادی طور پر روزگار فراہم کرسکے کیوں کہ ہندوستان اور امریکہ اس وقت چین کے خلاف مسابقت کی جدوجہد میں مصروف ہیں ۔ اس کے باوجود نہ ہی ٹرمپ اور نہ ہی مودی چین کے ساتھ مسابقت میں کامیاب نہیں ہوسکتے ، جب تک ہندوستان میں روزگار کا مسئلہ حل نہیں کیا جاتا ، اس وقت تک چین سے مسابقت کا مسئلہ حل نہیں ہوسکے گا ۔ یہ حکومت ملک میں صرف 10 تا 15 افراد کے لیے ہی روزگار پیدا کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کی ہوئی ہے ۔ بیروزگار نوجوانوں کے مستقبل کا تحفظ نہیں کرسکے گی ۔ ان نوجوانوں کے سامنے اپنی شناخت کھوئے جانے حکمراں بی جے پی کو لاحق خوف نے ہی وزیراعظم کو کرناٹک میں اندھا دھند جلسے منعقد کرنے کے لیے مجبور کردیا ہے ۔ مگر سچائی یہ ہے کہ کوئی بھی پارٹی اپنا احتساب کر کے عوام سے رجوع نہیں ہورہی ہے ۔ کرناٹک کے نتائج ہی بتائیں گے کہ کس پارٹی کو احتساب کی ضرورت ہے ۔ جو لوگ اقتدار میں خود کو اتنا طاقتور سمجھ رہے ہیں کہ قانون کو ڈرانے لگے ہیں لیکن انتخابی نتائج کے بعد قانون ان کو ڈرائے گا ۔ بلا شبہ عوام کے مسائل کا حقیقی حل سیاسی و جمہوری نظام اور اس کی ادائیگیوں میں ہے ۔۔