لکڑی کے ٹکڑوں سے غیر معمولی پینٹنگس ، سیدناصر وقار کا کارنامہ

غریبوں کی مدد اور نوجوانوں کی تربیت ، ملازمت سے سبکدوشی کے بعد بہترین کام ، فن چوبی کندہ کاری کے ماہر سے بات چیت
حیدرآباد ۔ یکم ۔ جون : ( محمد ریاض احمد ) : ریٹائر منٹ کے بعد اکثر لوگ خود بیوی بچوں کے درمیان رہنے کے باوجود تنہا محسوس کرنے لگتے ہیں ۔ سارا وقت گھروں میں بیٹھے یوں ہی گذار دیتے ہیں لیکن ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو مساجد کا رخ کرتے ہیں دعوت دین کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔ اس طرح عمر کے اس حصہ میں نیکیاں بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ایسے کام ہیں جس سے یقینا کسی فرد کی نیکیوں اور اچھائیوں میں اضافہ ہوتا ہے تاہم خدمت خلق اور غریب بچوں کو تعلیم و فن کی فراہمی ایسے کام ہیں جن سے نہ صرف ریٹائرڈ لوگوں کے نیکیوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ کئی غریب خاندانوں کے بچے حصول علم کی طرف مائل ہوتے ہیں ان کی قسمت ہی بدل جاتی ہیں ۔ قارئین آج ہم آپ کی ملاقات ایک ایسی شخصیت سے کروا رہے ہیں جنہوں نے کنگ فیصل فاونڈیشن ریاض سعودی عرب میں زائد از تین دہوں تک لائبریرین کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے سبکدوشی کے بعد خود کو غریب نوجوان لڑکے لڑکیوں کی مدد کے لیے وقف کردیا ہے ۔ ہم بات کررہے ہیں سعید آباد کے ساکن جناب سید ناصر الدین وقار کی عثمانیہ یونیورسٹی سے ایم اے ، ایم ایل ایس کرنے کے بعد سعودی عرب میں خدمات انجام دیتے رہے سید ناصر الدین وقار اب اسلامک فن کے فروغ اور نوجوان نسل کو اس کی تربیت فراہم کرنے میں مصروف ہیں ۔ وہ آئیل پینٹنگس اور چوبی آرٹ میں غیر معمولی مہارت رکھتے ہیں ۔ جہاں تک چوبی آرٹ کا سوال ہے سیدناصر الدین وقار لکڑیوں کے چھوٹے چھوٹے ہزاروں ٹکڑوں کو اس انداز میں استعمال کرتے ہیں کہ وہ اسلامک فن کے ایک شاہکار میں تبدیل ہوجاتے ہیں ۔ یہ فن شائد تمام فنون میں اپنی ایک علحدہ اور منفرد پہچان رکھتا ہے ۔ اپنی جوانی میں حیدرآباد کے ایک اچھے فٹبال کھلاڑی کی حیثیت سے پہچان بنانے والے سیدناصر الدین وقار سے گفتگو کرنے پر اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں ایک پر جوش کھلاڑی ، ایک سنجیدہ شخصیت فنان دست کار اور غریبوں کے تئیں ہمدرد رکھنے والا ہمدرد رچ بس گیا ہے ۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ انہوں نے چوبی آرٹ کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ غریب و ضرورت مند نوجوان لڑکے لڑکیوں کے لیے کمپیوٹرس ، موبائیل فون ریپیرینگ ، فیشن ڈیزائننگ ، ٹیلرنگ ، آرٹ اینڈ کرافٹ کی مفت تربیت کا بھی اہتمام کیا ہے ۔ ٹھیلہ پراجکٹ کے نام سے انتہائی غریب بیوپاریوں کی مدد بھی کرتے ہیں ۔ ٹھیلہ پراجکٹ کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ غریب بیوپاریوں کو سود کی لعنت سے بچانے کے لیے ایک ٹھیلہ اور 2000 روپئے دئیے جاتے ہیں تاکہ وہ کوئی چھوٹا سا کاروبار شروع کرسکیں تاحال اس پراجٹ کے تحت 30 لوگوں کی مدد کی گئی ۔ اس کام میں انہیں اپنے دوست سردار علی خاں شکاگو کا مکمل تعاون حاصل ہے ۔ سید ناصر الدین وقار اور ان کی اہلیہ یوسف فاطمہ امام العلوم ایجوکیشنل سوسائٹی کے ذریعہ بیروزگار نوجوانوں کو نہ صرف ڈرائیونگ کی تربیت فراہم کرواتے ہیں بلکہ انہیں ڈرائیونگ لائسنس بھی دلاتے ہیں اس کے لیے نوجوانوں سے کوئی معاوضہ نہیں لیا جاتا ۔ سید ناصر الدین وقار کے مطابق وہ سعید آباد میں نیو ایرا مشن ہائی اسکول بھی چلاتے ہیں اور ان کی اہلیہ اسکول کی کرسپانڈنٹ رہ چکی ہیں ۔ سعودی عرب میں ملازمت سے سبکدوشی کے بعد وہ حیدرآباد واپس ہوئے اور پھر لڑکیوں کے لیے سنڈے اسکول قائم کیا ۔ جس میں گلاس ورک ، ایمبرائیڈری ، ٹیلرنگ اور کمپیوٹرس کی تعلیم و تربیت دی جانے لگی ۔ گلاس ( شیشہ پر ) عربی خطاطی شروع کی گئی ۔ جس کے غیر معمولی نتائج برآمد ہوئے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ شیشہ نازک ہوتا ہے اس لیے اس کے ٹوٹ جانے کا خطرہ رہتا ہے ایسے میں ان کے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کیوں نہ لکڑی پر یہ کام کیا جائے چنانچہ انہوں نے مختلف سائز کے چوبی فریمس بناکر اس پر چوبی کندہ کاری کا کام شروع کردیا اور یہ کام سال 2005 سے جاری ہے ۔ اس کا مقصد خواتین و لڑکیوں کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ گھر میں بیٹھ کر بے ہودہ ٹی وی سیرئیلس دیکھ کر وقت ضائع کرنے کی بجائے فاضل اوقات میں چوبی آرٹ پر کام کرتے ہوئے کچھ آمدنی حاصل کرسکیں ۔ یہ ایسا فن ہے جس کے ذریعہ انٹرئیر ڈیزائننگ ، باورچی خانہ کے چھوٹے موٹے سامان دیواری گھڑیوں کے فریم وغیرہ تیار کئے جاسکتے ہیں ۔ اس فن کی کافی قدر بھی ہے ۔ ایک اور سوال کے جواب میں جناب وقار نے بتایا کہ وہ چوبی آرٹ کے ذریعہ صرف اسلامی آثار کا احاطہ کرتے ہیں جس کے لیے 35 قسم کی لکڑیاں استعمال کی جاتی ہیں ۔ تاحال 80 شاہکار نمونے تیار کئے جاچکے ہیں ۔ مکہ شریف اور مدینہ منورہ کی قدیم تصاویر پر مبنی چوبی پینٹنگس کے لیے لکڑی کے 2000 ٹکڑے استعمال کرنے پڑے ہیں بازار میں ان فن پاروں کی کافی قدر ہے ۔ اب تک 30 پینٹنگس فروخت ہوچکی ہیں ۔ فارئن آرٹ امریکہ ڈاٹ کام کے ذریعہ ان کی تیار کردہ آئیل پینٹنگس اور چوبی آرٹ کے نمونوں کو فروخت کیا جاتا ہے ۔ بعض نمونوں کی قیمت 5000 ڈالرس تک بھی ہے ۔ اس فن کے فروغ کی خاطر وقار صاحب نے سعید آباد میں ہاوز آف ٹیلنٹ قائم کیا ہے جہاں دو سو سے زائد لڑکے لڑکیوں کو تربیت دی گئی ہے ۔ کلاسیس سال بھر جاری رہتی ہیں ۔ سہ پہر تین تا شام آٹھ بجے تک بلا معاوضہ تربیت دی جاتی ہے ۔ 2005 میں راجیو گاندھی شرومنی ایوارڈ اور صادقین سیاست ایوارڈ یافتہ وقار صاحب نے مزید بتایا کہ ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ۔ چنانچہ اس کے نتیجہ میں ایم ایف حسین آرٹ گیلری نئی دہلی ، سالار جنگ میوزیم حیدرآباد ، جامعہ ملیہ یونیورسٹی نئی دہلی اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں ان کی تیار کردہ چوبی پینٹنگس کی نمائش کی جاچکی ہے ۔ وہ مستقبل میں اس فن کو فروغ دینے کی خاطر ابراہیم پٹنم میں اسلامک آرٹ انسٹی ٹیوٹ قائم کرنے کا رادہ رکھتے ہیں ۔ لکڑی کے ہزاروں ٹکڑوں سے ان کی بنائی گئی پینٹنگس کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ فن یقینا لاجواب ہے ۔۔