لڑکا اور لڑکی کے انتخاب میں دینداری اور امانت کو ترجیح دینا

نکاح میں تاخیر، فتنہ و فساد کاباعث

دین اسلام ، خالق اور مخلوق دونوں کے حقوق پر زور دینے والا مذہب ہے ، جو شخص اسلام کے دامن میں آجاتا ہے وہ خالق او رمخلوق دونوں کے حقوق کو بہ حسن و خوبی انجام دینے کا پابند ہوتا ہے ۔ نہ اسلام میں رہبانیت کی ترغیب دی گئی ہے اور نہ ہی خاندان ، قبیلے کو نظرانداز کرکے شخصی زندگی سنوارنے کو پسند کیا گیاہے ۔ چنانچہ سنن بیہقی میں حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے : اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے رہبانیت سے بدل کر ہمکو ’’الحنفیۃ السمعۃ ‘‘ ایسا دین عطا فرمایا جس میں کامل یکسوئی اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف ہے اور عمل و اخلاق میں کشادگی و رواداری ہے ۔
حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کو اطلاع دی گئی کہ اہل اسلام میں سے ایک جماعت نے اپنے اوپر گوشت ، خوشبو اور عورتوں کو حرام کرلیا ہے اور ان لوگوں نے خصی کرلینے یعنی مردانہ طاقت و قوت کو زائل کرلینے کا ارادہ کرلیا ہے ۔ ان میں حضرت عثمان بن مظعون اور حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنھما شامل تھے۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم اسی وقت منبر پر تشریف لائے اور اس ضمن میں سخت وعیدیں سنائیں حتی کہ سزائے موت دینے کی وعید سنائی ۔ پھر ارشاد فرمایا : مجھکو رھبانیت کے ساتھ نہیں بھیجا گیا ۔ بلاشبہ اﷲ کے پاس بہترین دین ’’الحنفیۃ السمعۃ ‘‘ ( یعنی اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف کامل یکسوئی اور عمل و اخلاق میں کشادگی و رواداری ) ہے ۔ سابقہ قومیں شدت کی وجہ سے ہلاک ہوئی ہیں ، جب انھوں نے سختی کو اختیار کیا تو شدت ان پر مسلط کردی گئی اور جو ( آبادی سے دور ) صومعہ ( بلند میناروں) میں ہیں اسی شدت کے بقایا جات ہیں۔ پھر ارشاد فرمایا : تم اﷲ تعالیٰ کی عبادت کرو ، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ، نماز قائم کرو ، زکوٰۃ ادا کرو ، حج اور عمرہ کرو ، (دین پر ) استقامت اختیار کرو یہ تمہارے لئے کیا ہی اچھا ہے ۔ (ابونعیم ، تاریخ اصفھان ۲۱۵؍۲)
ایک دوسری روایت میں ہے : ’’بعثت بالحنیفیۃ السمعۃ ‘‘ میں ’’حنیفیہ سمعتہ‘‘ یعنی آسان شریعت کے ساتھ بھیجا گیا ہو جو میری سنت کی مخالفت کرے گا وہ مجھ سے نہیں ۔
شادی قانون فطرت ہے ۔ شادی کے بغیر تعلق مرد و زن شرعاً ناجائز و حرام ہے ۔ ارشاد الٰہی ہے : اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کی آیات قدرت میں سے ہے کہ اس نے تمہاری جانوں سے جوڑوں کو پیدا کیا تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت کو بنایا یقینا اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے نشانیاں ہیں۔ ( سورۃ الروم ؍۲۱)

شادی انبیاء کرام علیھم السلام کی سنت مبارکہ ہے ۔ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے : ’’ہم نے آپ سے قبل رسول بھیجے اور ان کے لئے بیوی اور بچے بنائے ۔ ( سورۃ الرعد :۳۸)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے : رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کا ارشاد ہے : نکاح میری سنت ہے پس جو میری سنت پر عمل نہ کرے وہ مجھ سے نہیں ہے ۔ ( ابن ماجہ )
بخاری و مسلم کی روایت میں ہے : میں شادی کرتا ہوں ، جو کوئی میری سنت سے منھ موڑے وہ مجھ سے نہیں ہے‘‘۔
دین اسلام میں وقت پر شادی کرنے کی بڑی تاکید ہے ۔ کیونکہ شادی عفت و پاکبازی کا بہترین ذریعہ ہے ۔ بطور خاص آج کل کے جنسی بے راہ روی کے ماحول میں لڑکا یالڑکی کی شادی بیاہ کے معاملے میں تاخیر سے معاشرہ میں کئی ایک مفاسد و بگاڑ کے دروازے کھل رہے ہیں ۔ انٹرنیٹ و میڈیا نے تو قیامت برپا کر رکھی ہے ۔ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کا ارشاد ہے : اے نوجوانو ! تم میں سے جو کوئی شادی (کے حقوق و واجبات کے ادا کرنے ) پر قدرت رکھتا ہو اس کو چاہئے کہ وہ شادی کرلے کیونکہ نکاح بدنگاہی اور عصمت و عفت کی حفاظت میں بہت زیادہ مؤثر ہے اور جو شادی پر قدرت نہیں رکھتا اس کو روزہ رکھنا چاہئے ۔(بخاری و مسلم )

اس حدیث شریف کی رو سے سرپرست حضرات پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر حد درجہ توجہہ مرکوز کریں اور بچپن ہی سے ان کو ذمہ داری کا احساس دلایا جائے اور ان کی ایسی ذہن سازی کی جائے کہ وہ اپنی اعلیٰ تعلیم کے ساتھ خودمکتفی ہوں اور اپنی ضروریات خود اُٹھالیں اور ۲۰؍۲۱ سال کی عمر میں بہرحال وہ اپنا خرچہ اور اپنی بیوی کا نفقہ ادا کرنے کے قابل ہوں۔ یاد رکھیں کہ مانباپ کی غیرذمہ دارانہ تربیت اور اپنے نوجوان لڑکوں کی صحیح طورپر ذہن سازی نہ کرنے کی بناء آج بہت سے نوجوانوں میں خود کفالت کا شعور نہیں وہ تعلیم کی فراغت کے بعد اپنے معیار کے مطابق نوکری کی تلاش میں نہ صرف اپنی جوانی کا اہم حصہ ضائع کررہے ہیں بلکہ تعلیم کے بعد سالہا سال والدین کی کفالت میں بسر کررہے ہیں ۔ یہ مسلم معاشرہ کا ایک تکلیف دہ پہلو کہ ہمارے نوجوان اپنی اور اپنی اہلیہ کی کفالت کرنے کے قابل نہیں جس کے نتیجہ میں شادیوں میں تاخیر ہورہی ہے اور مسلم معاشرہ میں غیراخلاقی خرابیاں پروان چڑھ رہی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے : جب بندہ شادی کرلیتا ہے تو اس کا نصف دین مکمل ہوجاتا ہے اور وہ مابقی دین کی تکمیل کے لئے تقویٰ اختیار کرے۔ (الحدیث) آپ ؐ کا ارشاد ہے : جب تمہارے پاس ایسا پیام آئے جس کے دین اور امانت سے تم راضی و مطمئن ہو تو تم اس سے شادی کرادو ۔ اگر تم ایسا نہ کروگے تو زمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہوگا ۔ ( ترمذی شریف)

حضرت ابوھریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے : نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : عورت سے نکاح میں چار اُمور پیش نظر ہوتے ہیں۔ مال ، حسب نسب ، خوبصورتی اور دین ۔ پس تم دین داری کو اختیار کرو ، ایسا نہ کروگے تو تمہارے ہاتھ خاک آلود ہوں گے ‘‘ ( بخاری و مسلم)
مذکورہ دونوں احادیث سے واضح ہے کہ لڑکے میں دینداری کے ساتھ امانت کو پیش نظر رکھنا چاہئے یعنی لڑکا اپنی اہلیہ کی عزت و آبرو ، عصمت کا امین و محافظ ہے اور بیوی گویا اس کے پاس ایک ودیعت ہے وہ اس کے نفقہ و ضروریات کی ادائیگی کا قابل ہو ۔ علاوہ ازیں لڑکی کے انتخاب میں بھی حسب و نسب ، مال و دولت اور خوبصورتی و جمال پر دینداری کو ترجیح دینے کی تلقین کی گئی ہے ۔ دینداری کا مفہوم صرف صوم و صلوٰۃ کی پابندی نہیں ہے بلکہ بڑے چھوٹے کا احترام کرنے والی ، ادب و احترام سے آراستہ ہو ، خندہ پیشانی و خوش خلقی کا مظاہرہ کرنے والی ، سسرالی عزیز و اقارب کا احترام کرنے والی ہو ۔ دینداری محض صوم و صلوٰۃ اور گوشہ پردہ کی پابندی کا نام نہیں ہے ۔ دینداری میں خوش خلقی ، حسن سلوک ، اطاعت و فرمانبرداری اور تعلیم و تربیت شامل ہیں۔ مذکورہ حدیث سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اسلام میں حسب و نسب ، حسن و جمال مطلوب ومقصود نہیں بلکہ حقیقت میں دینداری اور خوش خلقی مقصود ہے نیز دینداری خوش خلقی ، تعلیم و تربیت کے ساتھ اچھا خاندان اور حسن و جمال جمع ہوں تو سونے پر سہاگا ۔ حدیث شریف میں ہے : بہترین خاتون وہ ہے جس کو تم دیکھو تو خوش ہو اور کوئی کام کے لئے کہو تو اُس کی تکمیل کرے ۔
بناء بریں سرپرست حضرات اور نوجوان لڑکے لڑکیوں کو چاہئے کہ وہ نکاح کو آسان سے آسان بنانے کی فکر کریں ، معیاری شادیوں کے خواب، بے جا رسم و رواج اور جھوٹی شان و شوکت کے اظہار کیلئے شادی بیاہ میں تاخیر نہ کریں کیونکہ سرکاردوعالم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم کے ارشاد کے مطابق شادی بیاہ میں تاخیر کی وجہ سے زمین میں فتنہ و فساد اخلاقی تنزل اور جنسی بے راہ روی میں اضافہ ہوگا ۔