انہیں پھر سے تازہ جفاؤں کی سوجھی
مری چشم نم جو ذرا مسکرائی
لوک پال بل پیانل
رشوت کے خلاف مہم میں سیاسی دیانتداری کا فقدان ہو تو اس کو کامیابی حاصل نہیں ہوسکتی۔ جس نعرے کے ساتھ عام آدمی پارٹی کو عوام کی حمایت حاصل ہوئی اس جن لوک پال بل کے تحت رشوت ستانی کا خاتمہ کرنے کیلئے دہلی کی نئی حکومت نے بل کو منظوری دی ہے۔ اس پر اپوزیشن نے اعتراضات کا طوفان کھڑا کردیا ہے۔ چیف منسر اروند کجریوال کی کابینہ نے بل کو منظوری دی ہے۔ اسے اسمبلی میں منظوری حاصل ہونا ضروری ہے۔ دہلی اسمبلی میں عام آدمی پارٹی کو کانگریس کے رحم و کرم پر رہنا ہے اس لئے اگر یہ کانگریس کو پسند نہیں ہے تو وہ اسے ایوان اسمبلی میں مسترد کردے گی۔ سیاستدانوں کا کہنا ہیکہ اس ملک کے عوام رشوت خوری کا خاتمہ کرنے کیلئے سخت ترین قانون کا انتظار کررہے ہیں۔ اب یہ طویل انتظار کی گھڑی ختم ہونے کی امید پیدا ہوئی ہے توبل میں اعلیٰ عہدوں کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کے تحت چیف منسٹر سے لیکر عام چپراسی تک کو ماخوذ کیا جاسکتا ہے۔ اس بل کی خصوصیت یا اہم بات یہ ہیکہ اس میں کوئی خصوصی مراعات نہیںہیں۔ کسی عہدہ یا اعلیٰ شخصیت کے معاملہ میں کوئی مروت نہیں برتی جائے گی۔ بل کی منظوری پر تمام بڑی شخصیتوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جاسکتا ہے جو بدعنوان ہوں انہیں بخشا نہیں جائے گا۔ گواہوں ملزموں اور شکایات کنندگان تمام کی بازپرس ہوگی اور ’’حساس نوعیت‘‘ کے کیسوں میں سزاء کو عمر قید تک توسیع دی جاسکتی ہے۔ بشرطیکہ بدعنوان ہونے کا ثبوت مل جائے۔ عام آدمی پارٹی حکومت کی تائید کرنے والی کانگریس نے اس بل کی مخالفت کی ہے۔
شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اروند کجریوال کی حکومت نے اس مجوزہ قانون کو منظوری کیلئے مرکزی وزارت داخلہ کے پاس روانہ کرکے دستوری دفعات کو پامال کیا ہے۔ اس کا سوال غور طلب ہے کہ حکومت کو کسی بل کی منظوری سے قبل اسے وزارت داخلہ سے منظوری حاصل کرنی پڑتی ہے مگر یہاں جو کچھ ہوا وہ یہ ہے کہ پہلے دہلی حکومت کی کابینہ نے بل کو منظوری دی اب وزارت داخلہ سے کہا جارہا ہیکہ اسے منظور کیا جائے۔ اگر یہی طریقہ کار رہے تو پھر تمام اصول و ضوابط کو طاق میں رکھا جائے گا تو یہ ملک کس طرح چلے گا؟ اروند کجریوال کے رول پر شروع سے انگلیاں اٹھانے والی کانگریس نے بل کی منظوری کیلئے کابینہ کی عجلت کو بہت بڑا معیوب عمل قرار دیا ہے۔ کیونکہ اروند کجریوال ایک ایسا کھیل کھیل رہے ہیں جس سے ہندوستان میں سیاست کا وجود ہی ختم ہوجائے جو اس ملک کے جمہوری اصولوں کے مغائر ہے۔ ملک سے رشوت کا خاتمہ کرنا عام آدمی پارٹی کا اصل نعرہ ہے۔ اس نعرہ سے وہ جیت کر آئی ہے تو اب وہ وہی موقف اچھا لگتا ہے۔ اس پر کانگریس یا دیگر اپوزیشن جماعتوں کا اعتراض کیا حیثیت رکھے گا وہ خود جانتی ہیں۔ دہلی کابینہ نے لوک پال بل منظور کرواکر اب کوئی خاص کارنامہ نہیں کیا ہے کیونکہ مرکزی حکومت نے پہلے ہی پارلیمنٹ میں جن لوک پال بل منظور کرالیا۔ اب وزیراعظم منموہن سنگھ نئے لوک آیوکت کا تقرر کرنے پر غور کررہے ہیں لیکن جن لوک آیوکت کیلئے جس ہستی کا نام وہ تجویز کرچکے ہیں اس پر بی جے پی نے اعتراض کیا ہے۔ کل تک لوک پال بل نہیں ہونے کی شکایت کے ساتھ پارلیمنٹ میں کانگریس اور بی جے پی ارکان میں ہنگامے ہوا کرتے تھے اب لوک پال کیلئے ایک سلیکشن پیانل بنانے کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ وزیراعظم منموہن سنگھ نے سینئر وکیل پی پی راؤ کو اس پیانل کے پانچویں رکن کی حیثیت سے تقرر عمل میں لانے کی تجویز رکھی تو بی جے پی نے اعتراض اٹھایا ہے۔ بی پی راؤ چونکہ کانگریس کی وفادار سمجھے جاتے ہیں اس لئے بی جے پی اس اہم پیانل کیلئے غیر سیاسی شخصیت کے تقرر پر زور دیئے جارہا ہے۔ یہ پہلا موقع ہیکہ ملک میں رشوت ستانی کے خاتمہ کیلئے قانونی ہتھیار کو تیز کردیا گیا ہے۔ اس کے لئے تمام عمل اتفاق رائے سے کیا جانا چاہئے۔
اس سلسلہ میں ممتاز جیوریوں کے نام پر بھی غور کیا گیا۔ قلی نریمن اور ہریش سالوے کسی ایک کو پیانل کا سربراہ مقرر کیا جاسکتا ہے۔ ملک میں بدعنوانیوں کے خاتمہ کیلئے اگر کوئی اچھا کام ہورہا ہے تو اس پر اتفاق سے قدم اٹھایا جانا چاہئے۔ شخصی معاملوں یا پارٹی مفادات کو ملحوظ رکھ کر کسی عہدہ کا انتخاب اور تقرر کے عمل میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں تو اس کا کوئی مصرف نہیں ہوگا۔ حکمراں اور اپوزیشن دونوں کو سنجیدگی سے جائزہ لیتے ہوئے مسئلہ کا حل نکالنا ہوگا۔ لوک پال چیرپرسن کے تقرر کیلئے انتخابی پیانل کو شفاف اور سیاسی کنٹرول سے آزاد ہونا چاہئے۔ اس 7 رکنی پیانل میں صرف ایک رکن کو حکومت کی جانب سے نامزد کیا جاتا ہے اور لوک پال کی میعاد سات سال کی ہوتی ہے۔ بدعنوانیوں کے خلاف مہم کے نام پر عوام کو بے وقوف بنانے کا عمل ترک کردیا جائے تو بہتر ہے۔ مرکزی حکومت سے تصادم کی راہ اختیار کرتے ہوئے دہلی کی حکومت اپنے مقاصد میں کامیاب ہوگی یہ کہنا مشکل ہے۔