لوک سبھا میں شوروغل کے درمیان حصول اراضی بِل پیش

نئی دہلی 24 فروری (سیاست ڈاٹ کام) متنازعہ حصول اراضی بِل اپوزیشن کے شوروغل کے دوران حکومت نے لوک سبھا میں پیش کردیا۔ احتجاج کرنے والوں میں این ڈی اے کی ایک حلیف پارٹی بھی شامل تھی۔ تقریباً پورے اپوزیشن نے بِل کو ’’کاشتکار دشمن اور غریب دشمن‘‘ قرار دیتے ہوئے واک آؤٹ کیا۔ مرکزی وزیر برائے دیہی ترقیات ویریندر سنگھ نے اسپیکر سمترا مہاجن سے جب حق منصفانہ معاوضہ و شفافیت برائے حصول اراضی، بازآبادکاری (ترمیمی) بِل 2015 ء پیش کرنے کی اجازت طلب کی۔ ساری اپوزیشن نشستوں سے اُٹھ کھڑی ہوگئی۔ کانگریس، سماج وادی پارٹی، ترنمول کانگریس، عام آدمی پارٹی، راشٹریہ جنتادل اور بائیں بازو کے ارکان ایوان کے وسط میں جمع ہوگئے۔ راجیو شٹی جن کی پارٹی سوابھیمانی شیٹکری سنگھٹن این ڈی اے میں شامل ہے، وہ بھی اِس اقدام کی مخالفت کرتے دیکھے گئے۔ اُنھوں نے کہاکہ یہ بِل کاشتکار برادری کیلئے تباہ کن ثابت ہوگا۔ سخت مخالفت کے دوران حکومت نے ترمیمی حصول اراضی قانون پیش کردیا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے واضح کیاکہ پیچھے ہٹنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

ساتھ ہی ساتھ بی جے پی، این ڈی اے کے شراکت داروں کے ساتھ قانون سازی کو زیادہ مؤثر اور کاشتکار دوست بنانے کیلئے تبادلہ خیال کی تیاری کررہی ہے۔ وزیر برائے پارلیمانی اُمور ایم وینکیا نائیڈو نے اپوزیشن ارکان کی برہمی کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کہاکہ بی جے پی حکومت قانون کی تمام دفعات پر بحث کیلئے تیار ہے لیکن اُن کی یہ کوشش ناکام رہی۔ کانگریس کے قائد ملکارجن کھرگے نے کہاکہ یہ قانون جو آرڈیننس کی جگہ لے گا، درحقیقت کاشتکار دشمن اور عوام دشمن ہے۔ اُنھوں نے کہاکہ اگر حکومت جو آج صدر کانگریس سونیا گاندھی اور دیگر اپوزیشن قائدین سے مشاورت کررہی ہے، آرڈیننس کے اجراء سے پہلے یہی رویہ اپناتی تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔ ترنمول کانگریس کے سوگت رائے نے قانون کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ وہ اِس بِل کی پوری طاقت کے ساتھ مخالفت کریں گے۔ بیجو جنتادل کے بھرتری ہری مہتاب نے کہاکہ اُن کی پارٹی بِل کے بعض بڑے فقروں کی مخالف ہے۔ اسپیکر سمترا مہاجن نے جیسے ہی اِس بل کی پیشکشی کی ندائی ووٹ کے بعد اجازت دی تو تمام اپوزیشن ارکان واک آؤٹ کرگئے جبکہ وینکیا نائیڈو نے اِن تمام پر جمہوریت کے قتل کا الزام عائد کیا۔ مرکزی وزیر کلراج مشرا نے کہاکہ اپوزیشن کو بِل کی مخالفت کرنے کے بجائے اِس پر مباحث کرنے چاہئیں۔

دریں اثناء ایک مرکزی وزیر کی جانب سے دستور کے دیباچہ سے الفاظ سیکولر اور سوشلسٹ حذف کرنے کے ارادہ کے خلاف بھی اپوزیشن نے سخت احتجاج کیا۔ وقفۂ صفر کے دوران جیوتیر ادتیہ سندھیا نے آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت کے مدر ٹریسا کے بارے میں متنازعہ تبصرہ پر بھی سخت احتجاج کیا لیکن اسپیکر سمترا مہاجن نے اُنھیں اس کی اجازت نہیں دی، حالانکہ سندھیا کو دیگر اپوزیشن ارکان کی تائید بھی حاصل تھی۔ اُنھوں نے کہاکہ ہم مرکزی وزیر کی مذمت کرتے ہیں جنھوں نے اس سلسلہ میں مباحث منعقد کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ مرکزی وزیر روی شنکر پرساد سکیولر اور سوشلسٹ الفاظ کو دستور کے دیباچہ سے حذف کرنے کے بارے میں مباحث کے انعقاد کا مطالبہ کیا تھا۔ یوم جمہوریہ اشتہار کا حوالہ دیتے ہوئے مرکزی وزیر وینکیا نائیڈو نے کہاکہ اِس اشتہار میں دستور کا اصل دیباچہ شائع کیا گیا تھا جس میں یہ دونوں الفاظ شامل نہیں ہیں۔ لیکن اِس سے کسی کو بھی یہ نتیجہ اخذ کرنا نہیں چاہئے کہ حکومت اِن الفاظ کو دیباچہ سے حذف کرنا چاہتی ہے۔ بی جے پی ارکان نے سوائن فلو کے پھیلاؤ، سمر یوتھ اولمپکس کے ہندوستان میں انعقاد اور ٹول فری ہیلپ لائن نمبر کے قیام جیسے مسائل بھی لوک سبھا میں اُٹھائے۔ اِن ارکان میں کرتھ سومیا، پونم مہاجن، کرن کھیر اور گوپال شٹی شامل تھے۔