نئی دہلی 15 مئی ( سیاست ڈاٹ کام ) ملک بھر میں نو مراحل میں ہوئے لوک سبھا انتخابات کی تکمیل کے بعد ووٹوں کی گنتی کا کام کل ہوگا ۔ رائے شماری کے بعد ملک میں آئندہ حکومت کی تشکیل کے تعلق سے فیصلہ ہوگا ۔ الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ ووٹوں کی گنتی کا عمل ملک بھر میں 989 مراکز پر ہوگا اور امکان ہے کہ یہ ووٹوں کی گنتی کا کام شام 5 بجے تک مکمل ہوجائیگا۔ رجحانات کا اندازہ گیارہ بجے دن سے ملنا شروع ہوجائیگا ۔ دو پہر تک یہ واضح صورتحال سامنے آسکتی ہے کہ 16 ویں لوک سبھا کی تصویر کیا ہوسکتی ہے اور اس میں کس کو اہمیت حاصل رہے گی ۔ پولٹنگ کی تکمیل کے بعد جو ایگزٹ پولس سامنے آئے ہیں ان میں بی جے پی کو واحد بڑی جماعت کی حیثیت ملنے کی پیش قیاسیاں کی گئی ہیں۔ ووٹوں کی گنتی کا کام صبح 8 بجے سے شروع ہوگا جب پوسٹل بیالٹس کی گنتی ہوگی ۔
الیکشن کمیشن کے رہنما خطوط میں یہ بات واضح کی گئی ہے ۔ پوسٹل بیالٹس کی گنتی کے آدھے گھنٹے کے بعد الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں سے ووٹوں کی گنتی کا کام شروع ہوگا ۔ سینئر پولنگ عہدیداروں اور امیدواروں کے کاؤنٹنگ ایجنٹس کی موجودگی میں بیالٹ یونٹ کو آن کیا جائیگا اور پھر ووٹوں کی گنتی کے بعد نتائج کا اعلان ہوگا ۔ یہ پہلے لوک سبھا انتخابات تھے جب ملک میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق تمام امیدواروں کو مسترد کرنے کا اختیار دیا گیا تھا اور اس کیلئے ان میں سے کوئی نہیں کا بٹن دیا گیا تھا ۔
ملک بھر میں نو مراحل کی رائے دہی بحیثیت مجمودی پر امن رہی تھی اور بعض مقامات پر ماؤیسٹوں کے کچھ واقعات پیش آئے تھے اور کچھ مقامات پر پولنگ سے متعلق تشدد بھی ہوا تھا ۔ 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں اب تک کے سب سے زیادہ تناسب میں یعنی 66.38 فیصد رائے دہی ہوئی تھی اور ایک اندازے کے مطابق 814 ملین رائے دہندوں نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا تھا ۔ یہ عام انتخابات کی تاریخ کی سب سے بڑی تعداد رہی ہے ۔ جیسے ہی نتائج کا اعلان کردیا جائیگا الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کئے جانے والے گزٹ میں کامیاب امیدواروں کے نام شامل کرلئے جائیں گے ۔ گزٹ اعلامیہ کے ساتھ ہی نئی لوک سبھا کی تشکیل کا عمل شروع ہوجائیگا ۔ انتخابات کیلئے جو مہم چلائی گئی وہ سیاسی جماعتوں اور قائدین کے مابین کئی تلخیوں سے بھرپور رہی ہے ۔ کئی قائدین اور جماعتوں نے ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد کئے اور تنقیدیں کی ہیں۔ انتہائی شدت کے ساتھ چلائی گئی انتخابی مہم میں بی جے پی لیڈر نریندر مودی نے کانگریس کے نائب صدر راہول گاندھی کو شہزادہ قرار دیا اور انہوں نے یو پی اے حکومت کو ماں ۔ بیٹے کی حکومت قرار دیا
اور انہوں نے سونیا گاندھی کے داماد رابرٹ واڈرا کو بھی اراضی معاملتوں پر نشانہ بنایا ۔ انہوں نے یو پی اے حکومت کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت نے کرپشن کو عام کیا ہے اور خاندانی حکومت فروغ دیا ہے ۔ انہوں نے اپنی مخالف جماعتوں پر اکثر یہ الزام عائد کیا کہ وہ سب صرف ایک نکاتی ایجنڈہ پر عمل پیرا ہیں اور مودی کو روکنا چاہتے ہیں۔ بی جے پی لیڈر مودی کو بھی دوسری جماعتوں کی تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور ان پر گجرات میں 2002 کے مسلم کش فسادات کی وجہ سے کئی تنقیدیں ہوئی ہیں۔ مغربی بنگال میں ترنمول کانگریس نے نریندر مودی کو گجرات کا قصاب قررا دیا جب مودی نے چیف منسٹر مغربی بنگال ممتابنرجی کی مذمت کی تھی ۔ مودی نے کہا تھا کہ ممتابنرجی کے اقتدار کے باوجود بنگال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ۔
انتخابی مہم کے دوران سماجوادی پارٹی لیڈر اعظم خان نے نریندر مودی کو کتے کے بچے کا بھائی قرار دیا تھا جبکہ مرکزی وزیر بینی پرساد ورما نے چیف منسٹر گجرات کو آر ایس ایس کا سب سے بڑا غنڈہ قرار دیا تھا ۔ بینی پرساد ورما نے مودی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا ۔ کانگریس نے بھی گجرات فسادات کے مسئلہ پر مودی کو مسلسل تنقیدوں کا نشانہ بنایا اور کہا تھا کہ گجرات ماڈل کی ترقی کا صرف ہوا کھڑا کیا گیا ہے اور حقیقت میںایسا کچھ نہیں ہوا ہے ۔ کانگریس نے آخری مراحل میں پرینکا گاندھی کو بھی انتخابی مہم کا حصہ بنادیا تھا ۔ انہوں نے اتر پردیش میں پارٹی کیڈر میں جوش و خروش پیدا کیا تھا ۔ تاہم وہ امیٹھی اور رائے بریلی تک محدود رہی تھیں۔