لنچستان : قاتل کہتا ہے میں نے مارا ، لیکن پولیس او رعدالت …؟

ایک ایسے دور میں جب جمہوریت کے چوتھے ستون یعنی صحافت کو بے معنی بنانے کی کوشش ہورہی ہے ۔صحافی کے قلم کی سیاہی ختم کی جارہی ہے ۔حکومت سے سوال کرنے والے نیوز چینلس او رصحافیوں پر شکنجہ کسا جارہا ہو اور اظہار رائے کی آزادی پر قد غن لگانے کی کوشش کی جارہی ہو ایسے حالات میں اگر کوئی نیوز چینل مجرمو ں کو کیفر کردار تک پہنچانے کیلئے اپنی صحافتی ذمہ داری ادا کرتا ہے ، تو وہ قابل مبارکباد ہیں ۔این ڈی ٹی وی کے رپورٹرس نے اپنی جان جوکھم میں ڈال کر مظلومین کیلئے انصاف کی امید پیدا کی ہے ۔اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ۔

دراصل ہاپور او رالور کے ہجومی تشدد کے معاملہ میں پولیس او رانتظامیہ نے جس طرح کا رویہ اختیار کیا اس پر شروع سے ہی سوال اٹھائے جارہے ہیں ۔یو ں تو ملک کے تقریبا ہر حصے میں ہی ہجومی تشدد کے واقعات میں ایک ہی طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے ۔گؤ کشی نام پر ، کہیں صرف بیف رکھنے کی افواہ پر ایک ہی فرقہ کے لوگوں کو نشانہ بنایاگیا ہے ۔ملک کا وزیر اعظم ہجومی تشدد پر روک لگانے کی اپیل کرے او رتشدد بجائے کم ہونے کے اس میں اضافہ ہوتا رہے ایسا کیسے ہوسکتا ہے ۔ملک کی سب سے بڑی عدالت بار بار ا س سلسلہ میں اپنی فکر مندی کا اظہار کیا ، سخت ہدایات جاری کئے ،حکومت کی سرزنش کرے پھر بھی ہجومی تشدد جاری رہے یہ کیسے ممکن ہے ۔یہ سب ممکن ہیں ، وہ اسلئے کہ جب حکومت کے نمائندے مرکزی وزراء ملزمین کا استقبال کریں گے ، انہیں پھولوں کا ہار پہنائیں گے تشدد اور فساد کے ملزمین کی کھلے عام پذیرائی کی جائے گی ، انہیں حکومتی عہدوں سے نوازا جائے گا ، ہجومی تشدد کو جائز ٹھہرانے کی کوشش کی جائے گی ۔توبھلے ہی نریندر مودی مگر مچھ کے آنسو بہالیں یا سپریم کورٹ کتنی بھی سخت ہدایات جاری کردے یہ چلتا رہے گا ۔

ان حالات میں ہجومی تشددپر روک لگانا ممکن ہی نہیں ہے ۔ بہر حال موجودہ دور میں جب حکومت کی سطح پر انصاف کی امیدیں دم توڑر ہی ہیں تعصب او رنفرت ہر جگہ اپنا کام کررہی ہے تو پھر عدلیہ ہی ایک راستہ ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہاپوڑ ہجومی تشدد میں کسی طرح زندہ بچ گئے سمیع الدین نے این ڈی ٹی وی کے انکشاف کے بعد سپریم کورٹ کے دروازہ پر انصاف کیلئے دستک دی ہے ۔اگر اب بھی حکومت او رسرکاری نمائندہ کا ضمیر بیدار نہیں ہوتا اور اخلاقیات کامظاہرہ نہیں کرتے تو پھر سمجھ لینا چاہئے کہ ہندوستان اتنی تیزی لنچستان کیوں بنتا جارہا ہے ۔