لندن میں دہشت گرد حملہ

میری اپنی ہر تباہی پر مجھے ایسے لگا
اک نئے امکان کا جیسے کوئی نقشہ ہوں میں
لندن میں دہشت گرد حملہ
لندن میں تازہ دہشت گرد حملہ 8 جون کو منعقد ہونے والے عام انتخابات سے صرف 4 دن قبل ہوا ہے۔ برطانیہ کو نشانہ پر رکھنے والے گروپس ان حکمرانوں اور سیاستدانوں کی مخالف مسلم پالیسیوں کو سخت بنانے کا موقع دے رہے ہیں۔ زائداز دو ہفتے قبل ہی مانچسٹر میں ایک امریکی گلوکارہ کے موسیقی ریز پروگرام پر خودکش حملہ کیا گیا تھا جس میں 22 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ خودکش بم بردار سلمان عابدی کا نام منظر عام پر آنے کے بعد مسلم دشمن عناصر نے اپنے پروپگنڈہ مہم میں شدت پیدا کردی۔ لندن حملے کی بین الاقوامی سطح پر کی جانے والی مذمت میں صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے مسلم غالب آبادی والے ممالک کے شہریوں کے سفر پر امریکہ کے امتناع احکامات کی اہمیت کو پیش کرکے برطانیہ کو بھی یہ مشورہ دیا کہ وہ بھی دہشت گرد حملوں کے خلاف چوکسی اختیار کرے اور سفر امتناع جیسے اقدامات کو اپنے شہریوں کے تحفظ کے لئے ضروری قرار دیا۔ برطانیہ میں دہشت گرد حملوں کا سلسلہ فرانس کے شہروں میں ہوئے ماضی کے حملوں کا تسلسل بتایا جارہا ہے۔ برطانیہ کو دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہونے میں ناکامی ہورہی ہے۔ 70 کی دہائی میں آئرش علیحدگی پسندوں کی جانب سے ہونے والے دہشت گردی کے متعدد حملوں کا سامنا کرنے والا برطانیہ اب ایک نئی دہشت گردی کی لہر سے دوچار ہے۔ یہاں 2005 ء سے ہی خودکش حملے ہورہے ہیں۔ ان برسوں میں دہشت گرد کارروائیوں پر قابو پانے کے لئے متعدد اقدامات بھی کئے گئے اور بے قصور مسلم شہریوں کو گرفتار بھی کیا گیا لیکن اصل ذمہ داران تک رسائی یا دہشت گردی کے نیٹ ورک کو کچلنے میں کامیابی نہیں مل سکی۔ مانچسٹر میں حملہ کرنے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دولت اسلامیہ نے 2005 ء میں لندن کی ٹرانسپورٹ پر ہونے والے سلسلہ وار بم دھماکوں کی یاد دلایا تھا۔ دہشت گردوں کا سامنا کرنے کے لئے برطانوی حکومت اور سکیورٹی ایجنسیوں نے حالیہ دنوں میں ایسے 5 حملوں کو ناکام بنایا ہے پھر بھی وہ شہریوں میں پھیلے ہوئے حملہ آوروں کی نشاندہی کرنے سے قاصر ہے۔ وزیراعظم برطانیہ تھریسامے نے دہشت گردی پر قابو پانے سے زیادہ دہشت گرد نظریات کے خاتمہ پر توجہ دینے کی جانب زور دیا ہے۔ اس سلسلہ میں تمام ملکوں کو پہل کرنی ہوگی کیوں کہ انٹرنیٹ کے ذریعہ دہشت گرد نظریات کو فروغ دینے والوں کا پتہ چلانا اور ان پر شکنجہ کسنا ضروری ہے۔ دہشت گرد حملوں کے فوری بعد عالمی طاقتوں کی نظریں مسلم دنیا کی جانب ہی دوڑتی ہیں اور ان کے ذہنوں سے نکلنے والے منفی منصوبوں کی وجہ سے نفرت کی دیواریں مزید بلند ہوتی جاتی ہیں۔ نفرت اور شدت پسندی کے نظریہ کا جواب شدت پسندی یا سخت کارروائی نہیں ہونی چاہئے کیوں کہ جب بھی شدت پسندی یا دہشت گردی کا حوالہ دیا جاتا ہے تو اسلام کی تصویر کو مسخ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہاں سے ہی خرابی جڑ پکڑ رہی ہے۔ اصل نفرت اور شدت پسندی پر قابو پانا ایک بڑا چیلنج ہے۔ برطانیہ کے انتخابات کو درہم برہم کرنے کی کوشش یا انتخابی عمل کے بعد تشکیل پانے والی حکومت کے بارے میں بھی دہشت گرد گروپس کے منصوبوں کا ان حالیہ حملوں کے تناظر میں نوٹ لیا جاتا ہے تو مستقبل کے لائحہ عمل کو قطعیت دینے میں مدد ملے گی۔ اس ایک سال میں تیسری مرتبہ دہشت گرد حملہ کا شکار برطانیہ میں عام انتخابات کے بعد تشکیل پانے والی حکومت کے لئے بڑے چیالنجس سے نمٹنے کی تیاری کس طریقہ سے کرنی ہوگی۔ اس پر غور و خوض کرنا نئے حکمراں کی ذمہ داری ہوگی۔ ویسے ان حملوں کا فائدہ اٹھانے والی برطانیہ کی سیاسی تنظیموں نے انتخابات کو منسوخ کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان انتخابات کو ہی سبوتاج کرنے کی کوشش کو روکنا برطانیہ کی پولیس اور انٹلی جنس ایجنسیوں کے لئے بہت بڑا چیلنج ہے۔ انتخابات کو ناکام بنانے کے لئے شائد یہ اندرون ملک رچائی گئی سازش ہوسکتی ہے یا پھر بیرونی طاقتوں کو برطانوی انتخابات درہم برہم کرنے میں دلچسپی ہے۔ مانچسٹر خودکش دھماکہ کے بعد انٹلی جنس ایجنسیوں کو جس طریقہ سے چوکسی اختیار کرنی تھی اس میں ناکامی کا تازہ ثبوت لندن حملہ ہے۔