لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی ہے …

کرم یہ غم سے کریم تر ہے
سحر یہ شب سے عظیم تر ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی ہے …
نریندر مودی حکومت میں کئی عناصر اپنا اپنا کھیل کھیل رہے ہیں ۔ ہندوستان کو غیر محفوظ ہاتھوں میں سونپنے والوں کے لیے یہ واقعہ کوئی معنی نہ رکھتا ہو مگر برصغیر ہند پاک کے امن پسند جمہوریت نواز شہریوں کے لیے افسوسناک صدمہ خیز ہے کہ فیض احمد فیض کی دختر منیزہ ہاشمی کو نئی دہلی میں کانفرنس کے لیے مدعو کر کے لمحہ آخر میں مقررین اور شرکت کرنے والوں کی فہرست سے ان کا نام ہی نکال دیا گیا ۔ وہ اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت وصول ہونے کے بعد دہلی پہونچی تھیں ۔ جب وہ ہوٹل پہونچی تو انہیں بتایا گیا کہ ان کے نام پر کوئی کمرہ بک نہیں ہے ۔ منتظمین کانفرنس سے ربط پیدا کرنے پر پتہ چلا کہ انہیں بھی اس کا کوئی علم نہیں ہے بلکہ پی ایم او کے عہدیداروں نے شاید انہیں تقریر سے روک دینے کا فیصلہ کیا ہو ۔ حکومت ہند کے اس رویہ پر منیزہ ہاشمی کے فرزند علی ہاشمی نے مودی حکومت پر ٹوئیٹر کے ذریعہ تنقید کی اور کہا کہ کیا یہی شائننگ انڈیا ہے جہاں ان کی 72 سالہ والدہ کو کانفرنس کے لیے سرکاری طور پر مدعو کر کے بے آبرو کیا گیا ۔ وزارت اطلاعات و نشریات نے اس کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی تھی ۔ 15 ویں ایشیا میڈیا سمیٹ 10 تا 12 مئی کو دہلی میں منعقد ہوئی ۔ علی ہاشمی نے وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خارجہ سشما سوراج سے مخاطب ہو کر ٹوئیٹ کیا کہ ان کی والدہ کو ڈی پورٹ کردینا کتنے شرم کی بات ہے ۔ منیزہ ہاشمی ایک مقبول اور محترم ٹیلی ویژن و میڈیا شخصیت ہیں ۔ حکومت ہند نے ایک مجرم کے طور پر برتاؤ کیا ہے جب کہ وہ اپنے ملک میں فوجی حکمرانی کے خلاف اور جمہوریت ، حقوق اور انصاف کی علمبردار ہیں ۔ ان کے ساتھ کئے گئے برتاؤ پر برصغیر کا امن پسند ، ادب نواز ، جمہوریت پسند اور ہندو پاک دوستی کا حامی ہر فرد سراپا احتجاج ہے ۔ پی آئی بی سربراہ ستانشوکر اس واقعہ پر لاعلمی کا اظہار کر کے اپنی ذمہ داریوں سے فرار ہونے کی کوشش کی ۔ سینئیر ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن نے مودی حکومت میں ہونے والے اس ڈی پورٹ واقعہ کو شرمناک قرار دیا ۔ فیض احمد فیض کی صاحبزادی کے ساتھ کیا گیا سلوک اور ایشیا میڈیا سمیت میں حصہ لینے سے روک کر واپس بھیجدیا جانا شرمناک واقعہ ہے ۔ ڈائرکٹر مہیش بھٹ نے بھی اس واقعہ پر احتجاج کیا ہے نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے غالب ۔ منیزہ ہاشمی نے اپنے ساتھ کئے گئے افسوسناک سلوک پر احتجاج نہیں کیا اور نہ ہی اس واقعہ کو انہوں نے مسئلہ بنایا ۔ یہ تو مودی حکومت میں شامل یہ عناصر ہیں جو نہیں چاہتے کہ ہند ۔ پاک تعلقات بہتر ہوں اور سرحد پار کے ادیبوں ، فنکاروں ، شاعروں ، کھلاڑیوں کو ایک دوسرے کی سرزمین پر عزت و احترام کے ساتھ خیر مقدم کریں ۔ دونوں ممالک نے ماضی میں دوستی کو مضبوط بنانے کی ہر ممکنہ کوشش کی ہے ۔ اسکالرس ، کارکنوں ، ادیبوں اور امن پسند عوام کے تعاون سے دونوں جانب امن کو فروغ دینے کی کوشش ہوتی رہی ہیں لیکن موجودہ حکومت ان تمام کوششوں کو ایک ہی جھٹکے میں ناکام بنادیا ہے ۔ ایشیا میڈیا سمیٹ کو ایشیاپیسفک انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے اہتمام کیا گیا جس کی وزارت اطلاعات و نشریات نے میزبانی کی تھی ۔ لیکن جب میزبان ہی مہمان کو بے آبرو کر کے نکال دے تو یہ ایک المیہ ہے ۔ اپنے ساتھ کئے گئے برتاؤ پر منیزہ ہاشمی نے نرم دل سے ردعمل ظاہر کیا جو ان کے جذبہ ہمسایہ اور پاکیزہ سوچ کا مظہر ہے کہ ’ لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے ‘ ۔ اس کانفرنس میں تقریبا 200 بیرون مندوبین نے شرکت کی اور 54 مقررین نے اپنے زریں خیالات سے واقف کروایا مگر منیزہ ہاشمی کو صرف اس لیے روک دیا گیا کیوں کہ وہ پاکستان سے آئی تھیں ۔ ہندوستان میں پہلی مرتبہ ایشیاپیسفک انسٹی ٹیوٹ برائے براڈ کاسٹنگ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے کانفرنس منعقد کی گئی تھی لیکن میزبانوں نے اپنی تعصب پسندی کا فطری مظاہرہ کر کے خراب مثال قائم کی ۔ اس حکومت کے عناصر نے یہ تو بتادیا کہ ان کی سوچ کے تانے بانے بکھیر گئے ہیں ۔۔