لطائف

٭ ایک قیدی کو دوسروں کے چیک پر ان کے جعلی دستخط کرنے کے الزام میں جیل لایا گیا تو جیلر نے اس کو مخاطب کرکے کہا: تمہیں کوئی نہ کوئی کام بھی کرنا پڑے گا، کیا تمہیں کوئی کام آتا ہے؟قیدی بولا: جناب! بس پریکٹس کے لئے دو دن کا وقت دے دیں۔ اس کے بعد میں جیل کے تمام افسران کے چیک سائن کردیا کروں گا۔
٭ ایک شخص نے نیلام گھر میں باتیں کرنے والے طوطے پر بڑھ بڑھ کر بولی دی اور آخر اسے حاصل کرلیا۔ راستے میں طوطے سے پوچھا۔کیوں میاں مٹھو! تم بولتے بھی ہو یا میں نے یوں ہی رقم ضائع کردی؟طوطا بولا: جناب! آپ کے مقابلے پر میں ہی تو بولی دے رہا تھا۔
٭ لیڈر (ڈاکٹر سے): میں جب تقریر کرنے لگتا ہوں، میری زبان تالو سے چمٹ جاتی ہے، ٹانگیں کانپنے لگتی ہیں۔ڈاکٹر نے جواب دیا، کوئی بات نہیں جھوٹ بولتے وقت اکثر ایسا ہوا کرتا ہے۔
٭ کرایہ دار نے مالک سے کہا: خدا کے لئے اس سال تو کھڑکیوں میں شیشہ لگوا دیجئے میں کمرے میں بیٹھتا ہوں تو تیز ہوا سے بال بکھر جاتے ہیں۔مالک مکان نے کرایہ دار کے دیئے ہوئے کرایہ میں سے 10 روپئے نکال کردیئے اور کہا: ’’اتنا خرچ کرنے سے کیا یہ بہتر نہیں کہ آپ حجام سے اپنے بال کٹوالیں۔
٭ ماں نے بیٹے سے پوچھا: تم رو کیوں رہے ہو؟بیٹے نے جواب دیا: آج ماسٹر صاحب نے مجھے کلاس سے باہر نکال دیا تھا۔ماں نے کہا: تم نے ضرور کوئی شرارت کی ہوگی۔ بیٹے نے کہا کہ قسم لے لو اماں جان! میں تو سویا ہوا تھا۔
٭ امیدوار نے انٹرویو لینے والے افسر سے کہا: جناب! نوکری تلاش کرتے کرتے میرے جوتے گھس چکے ہیں۔ افسر نے سوچ کر کہا: ’’تم انٹرویو کے درمیان یہ بات کوئی پانچ بار دہرا چکے ہو، پہلے فیصلہ کرلو کہ تمہیں نوکری چاہئے یا جوتے۔
٭ ایک آدمی: تم کون ہو؟دوسرا : میں وہ ہوں جس سے سب معافی مانگتے ہیں۔پہلا : کیا مطلب میں سمجھا نہیں۔دوسرا: میں بھکاری ہوں۔
٭ماں نے اپنے کم عمر بیٹے سے پوچھا: بیٹا! میں نے فقیر کو دینے کے لئے تمہیں پانچ روپئے دیئے تھے۔ وہ تم نے فقیر کو دے دیئے۔ بیٹا بولا: میں نے ان پانچ روپوں کی ٹافیاں لے لی تھیں اور دکاندار سے کہہ دیا تھا کہ تمہیں چاہئے کہ یہ پیسے خیرات کردو ۔