خدا جانے ہے کونسا ڈر مسلط
محل کا چمکتا حجر سہما سہما
لال قلعہ سے وزیر اعظم کی تقریر
ہندوستان کے وزیر اعظم کی حیثیت سے لال قلعہ کی فصیل سے قوم سے خطاب کرنے نریندر مودی کا خواب پورا ہوگیا ہے ۔ مودی نے آج 68 ویں یوم آزادی ہند کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل پر قومی پرچم لہرایا اور قوم سے خطاب کیا ۔ اپنی تقریر میں مودی نے اپنی دانست میں کئی مسائل کا تذکرہ کیا ہے اور ان مسائل کو حل کرنے کی کوششوں کا ادعا کیا ہے ۔ اس بات کو بہت اہمیت سے پیش کیا جارہا ہے کہ انہوں نے تحریری تقریر پڑھنے کی بجائے فی البدیہہ تقریر کی ہے ۔ اس کے علاوہ ان کی تقریر کے وقت لال قلعہ کی فصیل پر بلٹ پروف شیشے بھی نہیں لگائے گئے تھے ۔ اب تک یہ روایت رہی ہے کہ وزیر اعظم بلٹ پروف شیشے کے پیچھے سے قوم سے خطاب کرتے رہے ہیں اور ان کی تقریر ‘ تحریری ہوا کرتی تھی ۔ یہ دونوں ہی باتیں اتنی اہمیت کی نہیں ہیں جتنی بی جے پی اور ا س کے قائدین کی جانب سے دکھائی جا رہی ہیں۔ سب سے زیادہ اہمیت تو ملک اور قوم کو درپیش مسائل کی ہے ۔ انہیں حل کرنے کیلئے حکومت کے منصوبوں اور عزائم کی اہمیت تھی ۔ وزیر اعظم نے ان اہم اور ترجیح کے حامل مسائل اور چیلنجس پر کسی طرح کا اظہار خیال کرنے کی بجائے جو مسائل اٹھائے ہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ انتخابی تقاریر کے اثر سے ابھی تک متاثر ہیں۔ شائد وہ ابھی تک نعرہ بازی کے انداز میں تقاریر کرتے ہوئے ملک کے عوام کو راغب کرنے کی کوششوں ہی میں مصروف ہیں۔ انہیں وزارت عظمی سنبھالے ہوئے دو مہینے سے زیادہ کا عرصہ گذر چکا ہے اور اب ملک کو درپیش مسائل ان کی توجہ کے طلبگار ہیں لیکن ایسا تاثر عام ہوتا جا رہا ہے کہ مودی صرف انہیں مسائل پر اظہار خیال کرنا چاہتے ہیں جن پر وہ انتخابات کے دوران کرتے رہے ہیں اور ابھی تک ان کا انداز بھی ویسا ہی ہے ۔ وہ ایک وزیر اعظم کی حیثیت سے ذمہ داری کے ساتھ قوم کو درپیش مسائل کا تذکرہ کرنے کی جراء ت ہنوز نہیں جٹا پا رہے ہیں۔ حالانکہ انتخابات سے قبل مہم کے دوران انہوں نے ملک کے طول و عرض میں دورے کرتے ہوئے بڑی بڑی تقاریر کی تھیں اور عوام کو راغب کرنے اور رجھانے کیلئے بلند بانگ دعوے کئے تھے انہیں سبز باغ دکھا کر اپنے حق میں ووٹ حاصل کیا تھا لیکن اب وہ ان وعدوں کی تکمیل پر توجہ کرتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔
مودی نے آج کی تقریر میں نہ کوئی بڑی اسکیم کا اعلان کیا ہے اور نہ عوام کیلئے کسی بڑے فلاحی پروگرام کا اعلان کیا ہے ۔ ان کی تقریر کا بہت بڑا اعلان یہی ہے کہ وہ منصوبہ بندی کمیشن کو ختم کردیں گے اور اس کی جگہ کوئی نیا ادارہ قائم کیا جائیگا جو ہوسکتا ہے کہ قومی ترقیاتی کمیشن ہو ۔ تاہم مودی کا یہ اعلان بھی راست طور پر عوام سے تعلق رکھنے والا نہیں ہے بلکہ یہ ان کی فکر و ذہن کو ظاہر کرتا ہے ۔ منصوبہ بندی کمیشن روس سے ہندوستان کے قدیم و دیرینہ روابط کی علامت سمجھا جاتا تھا کیونکہ وہ سوشلسٹ دور کی یاد دہانی کرواتا تھا اور ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے روس میں موجود ایک ادارہ سے مثال لیتے ہوئے اسے قائم کیاتھا ۔ اب جبکہ ہندوستان امریکہ کے حلیفوں میں اپنا شمار کروانے میں فخر محسوس کرنے لگا ہے ایسے میں روس اور سوشلسٹ دور کی علامت کو برقرار رکھنا شائد نریندر مودی کو مناسب نہیں لگا اور اسی لئے انہوں نے منصوبہ بندی کمیشن برخواست کرتے ہوئے نئے کمیشن کے قیام کا اعلان کردیا ۔ نریندر مودی نے ملک میں عصمت ریزی کے واقعات میں اضافہ کے تعلق سے کہا کہ جس طرح والدین اپنی لڑکیوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں اسی طرح لڑکوں کی سرگرمیوں پر بھی نظر رکھنی چاہئے تاکہ وہ بگڑ نہ جائیں۔ یہ ایک ٹیچر کی ذمہ داری ہے اور ہندوستانی روایات اس کیلئے کافی ہیں۔ وزیر اعظم کو یوم آزادی کے موقع پر جہاں ترقیاتی ایجنڈہ پیش کرنا تھا وہاں اس طرح کے مسائل پر تبصرہ اور والدین کو مشورے دینا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ان کے پاس حقیقی معنوں میں کوئی ایجنڈہ نہیں ہے ۔
لال قلعہ کی فصیل سے بحیثیت وزیر اعظم قوم سے خطاب کرنے کا نریندر مودی کا ایک خواب تو پورا ہوگیا ہے لیکن ہندوستان کے 100 کروڑ سے زائد عوام کو انہوں نے ترقی اور بہتری کے جو خواب دکھائے گئے تھے ان خوابوں کی تعبیر فراہم کرنے کیلئے آج کی تقریر میں کوئی ایجنڈہ یا منصوبہ پیش کرنے میں وہ ناکام رہے ہیں۔ اب حالانکہ بی جے پی کے قائدین اور مرکزی وزرا اس تقریر کی تعریف میں زمین و آسمان ایک کر رہے ہیں لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے ۔ وزیر اعظم نے ایک اہم موقع پر ‘ جبکہ نہ صرف سارا ملک بلکہ ساری دنیا ان کی تقریر پر توجہ رکھی ہوئی تھی ‘ ایسے مسائل اٹھائے ہیں جو نہ ترجیحی کہے جاسکتے ہیں اور نہ ان کو ترقیاتی ایجنڈہ سے مربوط کیا جاسکتا ہے ۔ انہوں نے لال قلعہ کی فصیل سے خطاب کو یادگار بنانے کا موقع گنوادیا ہے ۔