مُلا نصر الدین نے ایک دفعہ کسی شخص سے دیگ مانگی۔ دو دن بعد جب انہوں نے دیگ واپس کی تو اس کے ساتھ ایک چھوٹی دیگچی بھی اس شخص کو دینے لگے۔ اس شخص نے پوچھا: ’’ یہ کیا ہے؟ ‘‘ مُلانصر الدین نے جواب دیا: ’’ اس دیگ نے بچہ دیا ہے۔‘‘ وہ شخص بڑا خوش ہوا۔
مُلا نصیر الدین نے پوچھا: ’’ یہ بچہ تم لے جاؤ گے یا میں رکھ لوں۔‘‘ وہ شخص لالچی تھا، فوراً بولا: ’’ نہیں، نہیں ! مجھے دے دیجئے۔ ظاہر ہے، جب دیگ میری ہے تو بچہ بھی میرا ہوا۔‘‘کچھ دن بعد مُلا نے اس شخص کے پاس جاکر دوبارہ دیگ مانگی۔ اس لالچی شخص نے فوراً دیگ مُلا کو دے دی۔ مُلا نے جب کئی روز تک دیگ واپس نہ کی تو اس شخص نے آکر تقاضہ کیا۔ مُلا نے جواب دیا: ’’ دیگ تو مرگئی۔‘‘ یہ سننا تھا کہ اس شخص نے شور مچانا شروع کردیا۔ وہ بولا:’’ کیسی باتیں کرتے ہیں آپ، بھلا دیگ بھی مرتی ہے؟ ‘‘مُلا نے جواب دیا: ’’ جب دیگ بچہ دے سکتی ہے تو مر بھی سکتی ہے۔ جب اس نے بچہ دیا تو تم خوشی خوشی لے گئے تھے، اس وقت تم نے نہیں کہا تھا کہ دیگ بھی کبھی بچہ دیتی ہے، اب مر گئی ہے تو کہہ رہے ہو، دیگ بھی کبھی مرتی ہے۔‘‘ مُلا نصرالدین کا جواب سن کر لالچی شخص اپنا سا منہ لے کر چلا گیا۔ یوں لالچی شخص کو آئندہ لالچ نہ کرنے کا سبق مل گیا۔