لالچ کی سزا

غریب نے جواب دیا جناب آپ کا فرمانا تو بے شک بجا ہے اور میں بھی جانتا ہوں مگر جناب ! میرے پاس پکی چھت بنوانے کیلئے پیسے کہاں ؟ امیر نے پوچھا پکی چھت پر کیا لاگت آئے گی ؟ غریب نے جواب دیا جناب ! پانچ ہزار تک تو لگ ہی جائیں گے ۔ یہ سن کر امیر نے جھٹ جیب میں سے پانچ ہزار کے نوٹ نکال کر اس غریب کے حوالے کردئے کہ جاؤ اس سے اپنا کام چلاؤ ۔ جب امیر رقم دے کر چلاگیا تو غریب کے پیٹ میں چوہے دوڑنے لگے کہ یہ تو بڑا سخی دولت مند تھا اگر 10 ہزار کہہ دیتا تو اتنے ہی دے جاتا میں نے غلطی سے کم کہہ دیا ۔ یہ سوچ کر وہ امیر کے مکان پر پہنچا اورکہنے لگا جناب ! میں نے اندازے میں غلطی کی تھی ۔ چھت پر دس ہزار کا خرچ آیئے گا ۔ امیر نے کہا ۔ وہ رقم کہاںہے جو میں نے تمہیں دی تھی ؟ غریب نے نوٹ نکال کر پیش کئے تو امیر نے اپنی جیب میں رکھ کرکہا : جاؤ مجھے اتنی توفیق نہیں کہ دس ہزار دے سکوں ، کوئی اور اللہ کا بندہ دے دے گا ۔ غریب بہت گھبرایا مگر امیر نے ایک نہ سنی آخر پچھتاتا اور یہ کہتا ہوا گھر کو پلٹ آیا کہ امیر کی کوئی خطا نہیں ۔ یہ میرے ہی لالچ کی سزا ہے ۔