لالچ سے توبہ …!

کسی بستی میں ایک مچھیرا ، اومید بھی رہتا تھا ، وہ بہت کام چور اور لالچی تھا دوسرے ۔ مچھیرے اس کی عادت سے تنگ تھے ۔اس کے گھر والے سمجھاتے کہ محنت سے کام کیا کرو ، جو مل جائے اس پر صبر و شکر کیا کرو مگر اومید پر ان باتوں کا ذرا اثر نہ ہوتا ۔ ایک دن جب وہ دریا میں مچھلیاں پکڑ رہا تھا تو اس نے ایک بہت بڑی مچھلی دیکھی۔اتنی بڑی کہ اگر وہ اسے پکڑلیتا تو مہینے بھر کی چھٹی ہوجاتی ۔ وہ جھٹ دریا میں کودا اور مچھلی کے پیچھے تیرنے لگا ۔ مچھلی بہت تیز تھی ، اومید کے ہاتھ نہ آئی ، لیکن اومید نے اس کا پیچھا نہ چھوڑا ۔ وہ تیرتے تیرتے دریا میں بہت دُور نکل گیا، آخرکار اس نے مچھلی کو پکڑلیا۔ اومید نے پلٹ کر دیکھا تو کنارا بہت دور تھا ۔ مچھلی کو ساتھ لے کر وہاں تک تیرنا بہت مشکل تھا ۔ وہ بہت تھک چکا تھا ، مگر اس پر لالچ سوار تھی ۔ اس نے مچھلی کو نہ چھوڑا اور دریا کے دھارے کے ساتھ تیرنے لگا ۔ تیرتے تیرتے وہ ایک ایسے بھنور میں جاپھنسا جو بہت خطرناک تھا اور آج تک کوئی انسان وہاں سے زندہ بچ کر نہیں آیا تھا۔ وہ چیخنے لگا ’’بچاؤ ، بچاؤ میں ڈوب رہا ہوں‘‘۔ اچانک ایک آدمی آیا اور اس نے اومید سے کہا ’’تم ایک لالچی آدمی ہو ، تمہاری یہی سزا ہے کہ تم اس بھنور میں ڈوب جاؤ‘‘ ۔ اومید نے قسمیں کھا کھاکر کہا ’’مجھے یہاں سے نکالو ، میں آئندہ لالچ نہیں کروں گا ‘‘ ۔ اس آدمی نے اس کی قسم پر اعتبار کرتے ہوئے اسے بھنور سے نکال لیا ۔ جان بچنے پر اومید نے خدا کا شُکر ادا کیا اور آئندہ لالچ سے بھی توبہ کرلی ۔