نسیمہ تراب الحسن
حضرت امام حسین علیہ السلام کا کہنا تھا کہ یزید ایک فرد کا نہیں بلکہ ملوکیت کا نام ہے، یزید ظلم و جبر کا نام ہے، انسانی اقدار کی پامالی کا نام ہے، لہذا مجھ جیسے یزید کی بیعت نہیں کرسکتے۔ اُدھر یزید کو فکر تھی کہ نہ جانے کب لوگوں کی آنکھوں سے غفلت کے پردے ہٹ جائیں اور وہ امام حسین کی طرف ہو جائیں، اس لئے وہ امام حسین کی بیعت کے لئے مصر تھا۔ چنانچہ اس نے مدینہ کے گورنر کو حکم دیا کہ اگر حسین بیعت پر راضی نہیں تو اُنھیں قتل کردو۔ ان حالات میں امام حسین علیہ السلام نے مقدس شہر مدینہ کی حرمت کو برقرار رکھنے کی خاطر وہاں سے اپنے اہل و عیال کے ہمراہ ہجرت مناسب سمجھی اور مکہ چلے گئے، کیونکہ عرب کے بین الاقوامی قانون کے تحت شہر مکہ میں قتل و غارتگری نہیں ہوسکتی تھی۔ جب امام حسین کو وہاں بھی حاجیوں کے بھیس میں اپنے قاتل نظر آئے تو انھیں حرمتِ کعبہ کا خیال دامن گیر ہوا۔ امام حسین نے اپنے حج کو عمرہ میں بدلا اور کوفہ کی طرف روانہ ہو گئے، جہاں کے لوگ مسلسل خطوط لکھ کر اپنی رہبری کے لئے بلا رہے تھے۔ حج کا زمانہ تھا، قافلے مکہ آرہے تھے اور یہ دیکھ کر حیران ہو رہے تھے کہ حج کے زمانے میں نواسۂ رسول مکہ سے کیوں نکل رہے ہیں؟۔ حضرت امام حسین نے سب کے سوالوں کا جواب دیا، وجوہات بتائیں اور سفر جاری رکھا۔ ایک منزل پر یزیدی فوج کے ایک دستہ نے حضرت امام حسین کا راستہ روک دیا۔ اس فوج کا سپہ سالار حر ریاحی تھا، اس نے امام حسین سے یزید کی بیعت کا مطالبہ کیا۔ امام حسین نے انکار کیا اور کہا: ’’میں خود جاکر یزید سے بات کرنا چاہتا ہوں‘‘ لیکن حر راضی نہیں ہوا۔
۲؍ محرم الحرام ۶۱ھ کو حضرت امام حسین علیہ السلام کربلا پہنچے اور نہر فرات کے کنارے خیمے نصب کئے گئے۔ جب یزیدی حکم ہوا کہ حسینی خیمے وہاں سے ہٹائے جائیں تو خیمے نہر سے دُور صحرا کی تپتی زمین پر لگا دیئے گئے۔ ۷؍ محرم سے لشکر حسینی پر پانی بند کردیا گیا۔ امام حسین نے دین اسلام کے اصول اور انسانیت کی قدروں کو سمجھانے کی ہر ممکن کوشش کی، مگر یزید پر کچھ اثر نہیں ہوا۔ اس کا بس ایک ہی حکم تھا کہ ’’اگر حسین بیعت پر راضی نہیں ہیں تو ان کا سر کاٹ کر میرے سامنے پیش کرو‘‘۔
کربلا کی جنگ دنیا کی ہر جنگ سے انوکھی تھی، جس میں نہ دولت و اقتدار دینے کا وعدہ تھا اور نہ ہی انعام و اکرام کا، بلکہ سردارِ لشکر حضرت امام حسین اپنے ساتھیوں کو بار بار آگاہ کر رہے تھے کہ ’’میرے ساتھ ہر طرح کی مصیبتیں اُٹھانی ہوں گی، لہذا جسے شہید ہونا ہے وہ میرے ساتھ رہے‘‘۔ ۹؍محرم کی رات حضرت امام حسین نے اپنے رفیقوں کو بلایا اور فرمایا: ’’اگر نظر کی حیا شامل ہے تو میں چراغ بجھا دیتا ہوں، جس کو جانا ہے خاموشی سے چلا جائے۔ میں اپنی اطاعت تم سب پر سے اُٹھا رہا ہوں اور قیامت میں شفاعت کا وعدہ کرتا ہوں‘‘۔ تاریخ اسلام گواہ ہے کہ چراغ تو بجھ گئے، لیکن دِلوں میں وفا کے چراغ روشن ہوگئے۔تاریخ بتاتی ہے کہ کربلا کا کوئی شہید ایسا نہیں، جو کسی ایک کے ہاتھ قتل ہوا ہو۔ ان کی شجاعت کا یزید کے دل و دماغ پر خوف تھا۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ باطل پر حق و صداقت کی ہیبت طاری تھی، اسی وجہ سے یزید نے تیس ہزار فوج جمع کی تھی، جب کہ حسینی لشکر میں کل ۷۲ افراد تھے۔ آج حسین ہرامتحان کے لئے تیار ہیں، ابھی تو شبیہ پیغمبر حضرت علی اکبر کو اذن جنگ دینا ہے اور اپنے اس اٹھارہ سال کے کڑیل جوان کے سینے سے برچھی کا پھل نکالنا ہے۔ اپنے شش ماہ کے بیٹے حضرت علی اصغر کو میدانِ جنگ لے جانا ہے اور ان کے گلے سے حرملہ کا تیر کھینچنا ہے۔ حضرت امام حسین علیہ السلام صبر کی منزلوں پر ثابت قدم ہیں اور دنیا والوں کو یہ بتا رہے ہیں کہ اشقیاء اگر مسلمان ہوتے تو رسول کی تصویر اکبر کو برچھیاں نہ مارتے، اگر صاحب ایمان ہوتے تو عباس کے بازو قلم نہ کرتے اور اگر انسان ہوتے تو ننھے علی اصغر کو شہید نہ کرتے۔اب حضرت امام حسین اکیلے ہیں، تین دن کے پیاسے ہیں۔ صبح سے لاشے اُٹھاکر سب کے خون میں نہائے ہوئے ہیں، لیکن ان کے عزم و استقلال میں ذرا بھی لعزش نہیں۔ اہل بیت کو خدا حافظ کہا، میدان جنگ میں آئے۔ لشکر یزید کے سپہ سالار ابن سعد سے کہا: ’’اپنی فوج کو خاموش کرو، میں کچھ کہنا چاہتا ہوں‘‘۔ اس نے جواب دیا: ’’یہ ممکن نہیں‘‘۔ آپ نے ایک اُنگلی سے اشارہ کیا تو سناٹا چھا گیا۔ اتمام حجت کے بعد حضرت امام حسین علیہ السلام کے لئے جنگ کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ امام حسین نے تلوار نکالی اور ایسی جنگ کی کہ دشمن کی فوج الامان الحفیظ کی صدائیں بلند کرکے بھاگنے لگی۔
عصر کا وقت ہوا، امام حسین نے تلوار نیام میں رکھی اور نماز پڑھنے لگے۔ جب آپ نے سر سجدے میں رکھا تو شمر نے موقع کا فائدہ اُٹھایا اور خنجر چلا دیا، تاکہ حق اور اصولوں کی پاکیزگی کے محافظ کے خون سے کربلا کی زمین رنگ جائے اور حق و صداقت کی راہ کے نشان مٹ جائیں، مگر کربلا میں راہِ حق کے بہتر (۷۲) شہیدوں نے اس ایک دن کو لافانی یوم شہادت تسلیم کروالیا۔بے شک آج کا دن حضرت امام حسین علیہ السلام کی عظمت کا دن ہے، ان کی عبادت کی انتہا کا دن ہے اور مطالبۂ بیعت کے شرمناک طریقہ کا دن ہے۔