قیمتی ہیرا

سلطان محمود غزنوی کا ایک خادم تھا جس کا نام ایاز تھا۔ اس کے دل میں ایاز کی قدر اپنے سب امیروں ، وزیروں سے زیادہ تھی۔ سلطان کے امیر، وزیر اور دوسرے درباری اس بات سے بہت جلتے تھے کہ سلطان ان سب کے مقابلے میں اپنے ایک معمولی خادم کی زیادہ عزت کرتا ہے مگر سلطان کے ڈر سے کچھ نہیں کہہ سکتے تھے۔ ہاں اس بات کا موقع ضرور ڈھونڈتے رہتے تھے کہ کسی طرح ایاز کو سلطان کی نظروں سے گرادیں۔
ایک روز سلطان محمود غزنوی دربار میں بیٹھا تھا اور اس کے تخت کے پیچھے اس کا خادم ایاز کھڑا تھا۔ دربار میں سب امیر، وزیر اپنے اپنے مرتبے اور عہدے کے لحاظ سے اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ اس وقت سلطان محمود غزنوی کی ہتھیلی پر ایک ہیرا رکھا ہوا تھا، اور وہ اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ سلطان کچھ دیر تک ہیرا دیکھتا رہا، پھر اپنے پاس بیٹھے ہوئے وزیر کی طرف بڑھادیا۔ ‘‘سلطان نے وزیر سے کہا : ’’ اس ہیرے کو توڑ ڈالو ۔‘‘ وزیر کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہنے لگا : ’’ توبہ ، توبہ !عالیجاہ! میں ایسے قیمتی ہیرے کو توڑنے کی گستاخی نہیں کرسکتا۔‘‘ سلطان نے ہیرا وزیر کے ہاتھ سے لے کر اپنے تمام درباریوں میں گھمایا۔ سب امیروں، وزیروں نے اس کی تعریف کی اور اسے توڑنے سے انکارکردیا۔ تمام درباریوں میں گھمانے کے بعد سلطان نے وہ ہیرا ایاز کو دکھایا۔ دوسرے درباریوں کی طرح اس نے بھی ہیرے کی تعریف کی۔

اس کے بعد سلطان نے اسے بھی وہی حکم دیا۔’’ ایاز! اس ہیرے کو توڑ ڈالو ۔‘‘ ایاز نے اسی وقت ہیرا فرش پر رکھا اور ایک پتھر اس پر دے مارا، یہ ہیرا ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا اور اس کے ریزے فرش پر بکھر گئے۔ سارے دربار میں سناٹا چھاگیا۔ امیر، وزیر حیرانی اور غصے سے ایاز کی طرف دیکھ رہے تھے۔ آخر ایک وزیر نے کہا : ’’ یہ تم نے کیا حرکت کی؟ ایسا قیمتی ہیرا ضائع کردیا؟ کچھ تو خیال کیا ہوتا ۔‘‘ایاز نے نہایت اطمینان سے جواب دیا: ’’ میرے آقا کا حکم ہیرے سے زیادہ قیمتی ہے۔ سلطان کے حکم کے سامنے یہ ایک ہیرا تو کیا، دنیا بھر کے ہیروں کی کوئی قیمت نہیں۔‘‘ یہ سن کر سلطان بہت خوش ہوا۔ پھر اس نے اپنے درباریوں سے کہا : ’’ کیا اسی لئے تم ایاز سے حسد کرتے ہو؟ تم نے ہیرے کی قیمت کا تو خیال کیا مگر میرے حکم کا کوئی خیال نہیں کیا۔ ایاز نے ہیرا ضرور توڑا ہے لیکن میرا حکم نہیں توڑا۔ اس کی یہی وہ خوبی ہے جس کی وجہ سے میں اسے عزیز رکھتا ہوں۔‘‘