قیمتی بنگلہ ۔ پسماندہ اضلاع

زندگی جب سے مصیبت نظر آتی ہے مجھے
اور بھی اپنی ضرورت نظر آتی ہے مجھے
قیمتی بنگلہ ۔ پسماندہ اضلاع
ہندوستان میں برسوں سے یہ تاثر پایا جاتا ہیکہ ملک کی ترقی کے دعوے کتنے بھی کئے جائیں یہاں امیر، امیر ہی ہوتا ہے اور غریب، غریب ہی رہتا ہے۔ بڑے نوٹوں کو برخاست کرنے کے فیصلہ کے بعد امیروں کی تعیشات پر مبنی زندگیاں اور ان کی خوشیوں پر کروڑہا روپئے کے اخراجات کی خبروں نے اس معاشرہ کے غریب عوام کو تجسس میں ڈال دیا ہے کہ آیا  ان کی محنت کی کمائی سے حاصل کردہ انکم ٹیکس اور اس کے غلط استعمال میں ملوث حکمراں طاقتیں آسانی سے کیوں بچ نکلتی ہیں۔ سیاستدانوں کو کوئی آنچ نہیں آتی۔ مرکزی حکومت کی بڑے کرنسی کے خلاف کی گئی کارروائی سے بڑی طاقتیں بے اثر دکھائی دیں۔ اس کا ثبوت بلاری کرناٹک کے سیاستداں بی جے پی لیڈر جناردھن گالی کی دختر کی شادی پر 500 کروڑ کے مصارف ہوں یا تلنگانہ میں چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کی سرکاری رہائش گاہ کیلئے 50کروڑروپئے، کے اخراجات یہ ایسے عوامل جن کو دیکھ کر ہندوستان کے عوام اپنے بے مائیگی پر ماتم کرتے ہوں گے۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے محل نما گھر اور بلٹ پروف سے آراستہ بیڈروم، باتھ روم تعمیر کئے جانے پر اگرچیکہ بعض گوشوں میں تنقیدیں ہورہی ہیں۔ چیف منسٹر اور ان کے اہل خانہ کی سیکوریٹی کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے مگر کسی بھی حکومت کے سربراہ کیلئے اتنی فضول خرچی اور سیکوریٹی کے نام پر باتھ روموں کو بھی بلٹ پرف سے راستہ کرنے کے بعد عوام کے اندر ناراضگی اور برہمی پیدا ہونا فطری امر ہے۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے کے چندرشیکھر راؤ ایک غیرمتنازعہ لیڈر مانے جاتے ہیں۔ ان کا کوئی کٹر حریف نہیں ہوسکتا اور نہ ہی ان کی سیکوریٹی کو کوئی خطرہ درپیش ہوسکتا ہے کیونکہ وہ عوام کے ہردلعزیز لیڈر ہیں۔ عوامی تائید جو عوام کے درمیان عوام کی سطح سے بلند ہوتے ہیں تو انہیں ان کی زندگی کو خطرہ ہونے کی بھی فکر نہیںہوسکتی لیکن اپنی رہائش کیلئے انہوں نے غیرمعمولی دولت خرچ کی ہے تو اس پر عوام کے چند گوشوں سے انگلیاں اٹھیں گی۔ اپوزیشن کو موقع مل رہا ہے کہ عوامی ٹیکس سے حاصل کردہ سرکاری مالیہ کا بے دریغ اور بیجا استعمال ہوا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب نئی ریاست کے اندر مالیہ کی کمی ہونے کی ہونے کی شکایت کی جارہی ہے۔ نئی ریاست کے اندر مزید نئے اضلاع کے قیام کے ذریعہ بہتر نظم و نسق کو یقینی بنانے پر توجہ دی جارہی ہے وہاں رہائش کیلئے کروڑہا روپئے خرچ کرنا عوام کے نزدیک حیران کن بات ہی ہوگی۔ جس ریاست میں پہلے ہی نت نئے مسائل ہیں نئے اضلاع کی تشکیل کے ساتھ ہی کئی نئے مسائل بھی ابھر آچکے ہیں۔ تلنگانہ کے بیشتر اضلاع کو پہلے ہی پسماندہ سمجھا جاتا تھا اور سابق آندھرائی حکمرانوں نے تلنگانہ کے کئی ا ضلاع کو پسماندگی کی جانب ڈھکیل دیا تھا۔ اب نئی تلنگانہ قیادت کے تحت سے ریاست مزید پسماندگی کا شکار بنادی جارہی ہے تو اس پر عوام کو افسوس ہی ہوگا۔ تلنگانہ میں 31 نئے اضلاع بنائے جانے کے بعد 8 اضلاع کو سب سے زیادہ پسماندہ ہونے کے زمرہ میں شمار کیا جارہا ہے اور 18 اضلاع ایک اوسط ترقی والے علاقوں میں شامل ہیں۔ حیدرآباد کے علاوہ میڑچل، رنگاریڈی، نظام آباد اور سرسلہ راجن ہی میں مجموعی ترقی دیکھی  جاتی ہے۔ ماباقی دیگر اضلاع کی پسماندگی  کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ان اضلاع میں 4 اضلاع بہت ہی خراب حالت میں ہیں جہاں پینے کے پانی کی سہولت کا فقدان پایا جاتا ہے۔ صاف صفائی کا برا حال ہے۔ کچی سڑکیں، برقی کی سربراہی میں لاپرواہی اور حفظان صحت کے معاملہ میں یہ اضلاع بری طرح ابتری کا شکار ہیں۔ ان تمام حقائق کو نظرانداز کرکے جب حکمراں طاقت اپنی سیکوریٹی کا خاص خیال رکھتی ہے اور اس کیلئے باتھ روم تک بلٹ پروف سے آراستہ کرواتی ہے تو غریب ریاست کے غریب اور بے بس عوام کے لئے ایک المیہ سے کم نہیں۔ نوٹوں کی منسوخی نے جن غریبوں کی کمر توڑ دی ہے وہیں ان کی حکومت کی من مانی نے انہیں مجبور اور کمزور بنادیا ہے۔ سرکاری دواخانے، ادویات، بہتر سہولتوں، بنیادی ضروریات سے محروم ہیں۔ ڈاکٹرس اور بستروں کی کمی سے کئی سرکاری دواخانوں میں غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ہر ضلع کے متعلقہ ہیلت عہدیدار بھی بے بس ہیں کہ ان کیلئے ریاستی حکومت کی جانب سے خاطرخواہ فنڈس فراہم نہیں کیا جاتا اور دیرینہ حل طلب مسائل جوں کا توں رکھے جاتے ہیں۔ تقاضوں کو پورا نہیں کیا جاتا۔ ایسے میں بیشتر مریضوں کو بڑے شہروں کے دواخانے کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ ان بڑے شہروں جیسے حیدرآباد و سکندرآباد کے سرکاری دواخانوں میں بھی مریضوں کی کثیر تعداد شریک ہونے سے ان کا علاج اور دیکھ بحال مشکل بنادیا ہے اور یہ سب خرابیاں اس وقت دن بہ دن ابتری کا رخ اختیار کرتی جارہی ہیں۔ جب ریاست کا حکمراں عدم توجہی کو عادت بنا لیتا ہے یا اپنی دنیا میں مگن رہنے کو ترجیح دے کر اپنی ہی مرضی کا مالک کہلاتا ہے تو خرابیاں جڑ پکڑیں گی ۔