قیدیوں کی انکاونٹر میں ہلاکت پر تشویش، پولیس کی کارکردگی پرسوالات

جناب حامد محمد خان امیر جماعت اسلامی تلنگانہ و اڑیسہ کا بیان
حیدرآباد /2 نومبر ( پریس نوٹ ) بھوپال سنٹرل جیل سے فرار آٹھ افراد جن کا تعلق ممنوعہ تنظیم اسٹوڈنٹ اسلامک مومنٹ آف انڈیا ( سیمی ) سے تھا کو فرضی تصادم میں ہلاک کئے جانے کا واقعہ انتہائی المناک اور تشویشناک ہے اور اس سے ملک کے نظام پر سوال کھڑا ہوتا ہے ۔ امیر حلقہ جناب حامد محمد خان نے پریس  آج یہ باتیں کہیں۔ انہوں نے کہا کہ واقعہ کے مختلف پہلوؤں کے پیش نظر اس وقت تک اسے فرضی انکاونٹر ہی تسلیم کیا جائے گا جب تک کہ اعلی سطحی جانچ رپورٹ نہیں آجاتی ۔ امیر حلقہ نے اس واقعہ کی اعلی سطحی انکوائری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کی انکوائری سپریم کورٹ کی نگرانی میں کرائی جائے تاکہ واقعہ کی اصلیت کا صحیح اندازہ ہو اور وہ کھل کر سامنے آسکے ۔ انہو ںنے مزید کہا کہ فرار ہونے کے بعد یہ سب ایک ساتھ ہی کیوں رہے اور شہر کی جانب نہ جاکر بے آب و گیاہ علاقے کی طرف کیوں بھاگ نکلے اور پولیس اتنے قلیل وقت میں ان پر کیسے قابو پاسکی پر شبہ پیدا کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے ان کے پاس سے کسی طرح کا اسلحہ برآمد نہیں کیا ہے تو پھر انہیں گرفتار کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی ۔ انتہائی عجلت میں ان کا انکاونٹر کیوں اور کیسے کیا گیا۔ انہوں نے انتہائی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو افراد اس فرضی تصادم پر سوالات کھڑے کر رہے ہیں انہیں سیاست زدہ قرار دینا اور کہہ کر معاملے کا رخ موڑنے کی کوشش کرنا کہ اس سے پولیس کا حوصلہ پست ہوگا خطرناک رحجان ہے ۔ یہ راست طور پر احتساب سے گریز کرنے کی کوشش ہے جو کسی بھی جمہوری ملک کیلئے سم قاتل ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس سے قبل بھی خالد مجاہد کو لکھنو جیل میں ، قتیل صدیقی کو مہاراشٹرا جیل میں اور محمد وقار کو حیدرآباد میں حراست کے دوران ہلاک کیا گیا ۔ گذشتہ سال بھی تلنگانہ میں سات افراد کو فرضی انکاونٹر میں مارا گیا تھا ۔ اس طرح کے واقعات سے نہ صرف انصاف کا عمل متاثر ہوتا ہے عدلیہ اورپولیس پر بھی عام لوگوں کا یقین متزلزل ہوتا ہے ۔ جو ملک کیلئے تباہ کن ہے ۔ انہوں نے سوال کرتے ہوئے کہا کہ کیا ہماری جیلیں اتنی غیر محفوظ ہیں کہ یہاں سے قیدی بہ آسانی فرار ہوجائیں تو ایسے میں حکومت کو اس جانب فوری توجہ کرنی چاہئے تاکہ آئندہ اس طرح کے واقعہ کا اعادہ نہ ہو۔