قیام تلنگانہ ریاست کے خلاف چیف منسٹر کا ایک اور حربہ

حیدرآباد 25 جنوری (سیاست نیوز) چیف منسٹر مسٹر این کرن کمارنے ریڈی اسپیکر کو نوٹس حوالے کرتے ہوئے صدر جمہوریہ ہند کی جانب سے اسمبلی کی رائے حاصل کرنے روانہ کردہ ’آندھرا پردیش تنظیم جدید بل ‘ کو غیر دستوری قرار دیتے ہوئے واپس کردینے کی خواہش کی۔ کرن کمار ریڈی نے آج تلنگانہ بل پر مباحث میں حصہ لیتے ہوئے دعوی کیا کہ ریاست کو موصولہ بل صرف مسودہ بل ہے جبکہ دستور کے اعتبار سے اسمبلی کی رائے حاصل کرنے قطعی بل روانہ کیا جانا چاہئے ۔ انہوں نے بتایا کہ بل کی تیاری میں بھی قانونی امور و معتمدی اختیارات کا پاس و لحاظ نہیں رکھا گیا اس لئے یہ بل غیر دستوری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جب معتمد مرکزی مملکتی وزارت داخلہ نے بل ریاست کو روانہ کیا تو اس وقت اسے مسودہ بل کہاگیا تھا بعدازاں صدر جمہوریہ نے اس پر جو مکتوب روانہ کیا اس میں ’بل‘ قرار دیا گیا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسکی تیاری میں قوانین کا پاس و لحاظ نہیں رکھا گیا ۔کرن کمار ریڈی نے اسپیکر مسٹر این منوہر سے خواہش کی کہ اس بل کو جوں کا توں واپس کردیا جائے چونکہ اس کے ساتھ دیگر ضروری دستاویزات بشمول فینانس کمیٹی سفارشات اور وزارت قانون کی رائے منسلک نہیں ہے ۔

انہوں نے مباحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ریاست کی تقسیم کی صورت میں تلنگانہ کو نا قابل تلافی نقصان ہوگا اور اس نقصان کی پابجائی کے ذرائع تلنگانہ میں موجود نہیں ہیں۔ مسٹر ریڈی نے بتایا کہ وہ کانگریس سربراہ مسز سونیا گاندھی سے واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ ریاست کی تقسیم ان کیلئے ان کے والد کی موت کے مترادف ہے اور بحیثیت متحدہ ریاست کے حامی وہ آج بھی یہ کہہ رہے ہیں۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر یہ دعوی کیا کہ وہ حیدرآبادی ہیں اور انہیں حیدرآباد سے جذباتی وابستگی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ یہیں تعلیم حاصل کئے ہیں اور کرکٹ میں بھی انہوں نے حیدرآباد کو ترجیح دی جبکہ وہ چاہتے تو اس وقت آندھرا کیلئے کھیل سکتے تھے۔ چیف منسٹر نے بتایا کہ علحدہ تلنگانہ کی تشکیل سے تلنگانہ کے نوجوانوں کو ملازمتیں حاصل ہونے کے جو وعدے کئے جارہے ہیں وہ درست نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تلنگانہ کے ساتھ کسی نے نا انصافی نہیں کی ہے بلکہ تلنگانہ کو زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کئے گئے ہیں جبکہ رائلسیما سے نا انصافی کی شکایت بجا قرار دی جاسکتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تعلیم، برقی ،آبپاشی ،زرعی اور ملازمتوں کے معاملہ میں تلنگانہ کافی بہتر ہے جبکہ رائلسیما کی حالت ابتر ہے۔انہوں نے طبی سہولتوں کے اعتبار سے حیدرآباد کو بہترین شہر قرار دیتے ہوئے کہا کہ تمام بڑے کارپوریٹ ہاسپٹلس اس شہر میں ہیں لیکن پھر بھی یہ کہا جارہا ہے کہ تلنگانہ سے سیما آندھرا قائدین نے نا انصافی کی ۔ انکی 1.30 گھنٹے طویل تقریر کے دوران بی جے پی ‘ ٹی آر ایس ‘ تلگودیشم اور کانگریس تلنگانہ حامی ارکان رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کررہے تھے ۔ انہوں نے تلنگانہ مطالبہ کرنے والوں کو تلنگانہ کو تباہ کرنے والے قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس علاقہ میں عوام متحدرہنا چاہتے ہیں لیکن سیاسی مفادات کا شکار افراد ان میں نفرت پیدا کررہے ہیں۔ مسٹر ریڈی نے بتایا کہ ان کی حکومت نے تلنگانہ سے کبھی سوتیلا سلوک نہیں کیا بلکہ تلنگانہ کی ترقی کو یقینی بنانے اقدامات کئے گئے۔ انہوں نے دعوی کیا کہ ریاست کی تقسیم کے حیدرآباد پر منفی اثرات ہوں گے۔ تقسیم کی صورت میں سب سے بڑا امن و قانون کا مسئلہ ہوگا ۔حیدرآباد کے علاوہ تلنگانہ میں کئی علاقے ہیں جہاں خصوصی انتظام کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کرن کمار ریڈی نے فرقہ وارانہ فسادات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ حقیقت سے بعید بحث نہیں بلکہ حقیقت ہے ۔

انہوں نے ان کی حکومت کی اسکیمات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ عوام کی فلاح و بہبود میں حکومت نے کبھی علاقہ و اریت کی بنیاد پرتفریق نہیں کی۔ انہوں نے دعوی کیا کہ جب انہیں واقف کروایا گیا کہ 1956 سے اب تک تلنگانہ کا کوئی ایڈوکیٹ جنرل نہیں رہا تو انہوں نے نہ صرف تلنگانہ کے ایڈوکیٹ جنرل کو تقرر کیا بلکہ معتمد قانون و پبلک پراسکیویٹر تلنگانہ والوں کو بنایا ۔ چیف منسٹر نے علاقہ واری اساس پر اساتذہ کی تعداد، اسکول و کالجس کی تعداد ، برقی سربراہی کے اعداد و شمار برقی پیداوار کے علاوہ زرعی امور سے متعلق حکومت کے اقدامات پر کہا کہ حکومت نے تلنگانہ میں زرعی اراضی کو سیراب کرنے میں کوئی تعصب کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ سیما آندھرا سے زیادہ اراضیات کو تلنگانہ میں سیراب کیا گیا۔ انہوں نے عدلیہ میں تقررات کے تعلق سے کہا کہ اس میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا اسی لئے وہ کچھ کہنے سے قاصر ہیں۔ چیف منسٹر نے دعوی کیا کہ تاحال انہوں نے تلنگانہ کی ترقی کیلئے ایک لاکھ 15 ہزار کروڑ کے منصوبوں کو منظوری دی ہے ۔ کرن کمار ریڈی مکمل خطاب کے دوران جذبات سے مغلوب نظر آرہے تھے انہوں نے ایک مقام پر اردو میں کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ ’’ہم حیدرآبادی ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ حیدرآباد کا نام اونچا رہے‘‘ انہوں نے چیف منسٹر کا عہدہ سنبھالتے ہی اپنے بیان کا حوالہ دیا اور کہا کہ وہ اس شہر میں سیکل ، بس ،آٹو رکشا ،کار ،ہر گاڑی میں ہر گلی میں سفر کرچکے ہیں اور اب اس شہر میں ہی بحیثیت چیف منسٹر موٹر کاروں کے قافلے میں سفر کررہے ہیں۔ انہوں نے بارہا حیدرآباد سے اپنی جذباتی وابستگی کے اظہار کی کوشش کی۔