ابوزاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
اللہ تعالی ہر چیز کا خالق ہے، چاہے انسانی حس سے وہ چیز غائب و پوشیدہ ہوں یا وہ ان اشیاء کا ادراک انسان کرسکتا ہو، لہذا کسی مخلوق کو یہ حق حاصل نہ تھا کہ وہ ایک دوسرے پر فوقیت و فضیلت کا دعویٰ کرسکے۔ لیکن یہ خالق کونین کا لطف و احسان ہے کہ اس نے عالم سفلی میں انسان کو ہر حیثیت و اعتبار سے تمام مخلوقات پر عزت و شرف بخشا اور متعدد مکارم و فضائل سے متصف فرمایا، جو انسان کی برتری کا پہلا مرحلہ تھا۔ ارشاد ربانی ہے ’’اور بے شک ہم نے بڑی عزت بخشی اولاد آدم کو اور ہم نے سوار کیا انھیں (مختلف سواریوں پر) خشکی میں اور سمندر میں اور رزق دیا انھیں پاکیزہ چیزوں سے اور ہم نے فضیلت دی انھیں بہت سی چیزوں پر جن کو ہم نے پیدا فرمایا نمایاں فضیلت‘‘۔ (سورہ بنی اسرائیل۔۷۰)
اللہ رب العزت نے انسان کو استیلا و قوت تسخیر عطا فرماکر تمام مخلوقات کو اس کا خادم اور انسان کو مخدوم کائنات بنایا۔ انسان کی کج فہمی اور کرتوت دیکھئے کہ اس نے اپنا بلند مرتبہ اور مقام رفیع چھوڑکر ادنی اشیاء کی چاہت میں گرفتار ہوکر نافرمانیوں کا شکار ہو رہا ہے۔ دوسرے اور تیسرے مرحلہ پر اللہ تعالی نے تمام انسانوں میں بالترتیب اہل ایمان اور اہل علم کو رفعت بخشنے کا وعدہ فرمایا ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’اللہ تعالی ان کے جو تم میں سے ایمان لے آئے اور جن کو علم دیا گیا درجات بلند فرمادے گا‘‘ (سورۃ المجادلۃ۔۱۱) چوتھے مرحلہ پر اللہ تعالی نے اساتذہ کو بلندی مراتب و رفع درجات کا مستحق قرار دیا۔ ارشاد ربانی ہے ’’پھر جب آدم (علیہ السلام) نے بتا دیئے فرشتوں کو ان کے نام‘‘ (سورۃ البقرہ۔۳۳) یعنی واقف علوم و معارف حصرت سیدنا آدم علیہ السلام جب معلم الملائکہ یعنی تمام قدسی صفات ملائکہ کے استاد بن گئے تو اللہ تعالی نے فرشتوں کو حکم فرمایا کہ ’’آدم کو سجدہ کریں‘‘۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے ’’اور جب ہم نے حکم دیا فرشتوں کو کہ سجدہ کرو آدم کو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے‘‘ (سورۃ البقرہ۔۳۴) اس آیت پاک میں جہاں ایک طرف استاد کی اہمیت و فضیلت کو بیان کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب استاد کی توہین پر وعید بھی سنائی جا رہی ہے، یعنی اگر استاد کی عزت و توقیر نہ کروگے تو نعائم الہیہ سے محروم ہو جاؤگے۔
معمار کعبہ حضرت سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام تعمیر کعبہ سے فارغ ہونے کے بعد اپنے لئے، اپنی اولاد کے لئے فکر انگیز اور معنوی و مادی ضروریات زندگی کی جامع دعاء مانگی۔ اس کے بعد ایک ایسے جلیل القدر رسول کی بعثت کی التجا فرما رہے ہیں، جو تین اوصاف جلیلہ سے متصف ہو۔ قرآن حکیم نے آپ کی اس دعاء کو ان الفاظ میں نقل فرمایا۔ ارشاد ہوتا ہے ’’اے ہمارے رب! بھیج ان میں ایک برگزیدہ رسول ان ہی میں سے، تاکہ پڑھ کر سنائے انھیں تیری آیتیں اور سکھائے انھیں یہ کتاب اور دانائی کی باتیں اور پاک صاف کردے انھیں، بے شک تو ہی بہت زبردست اور حکمت والا ہے‘‘ (سورۃ البقرہ۔۱۲۹) یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایسے رسول کو مبعوث فرمانے کی دعاء مانگی، جو (۱) قاری (یعنی فن قراء ت کا ماہر جو تعلیم و تربیت کے لئے مقدمہ و تمہید کی حیثیت رکھتا ہو) (۲) معلم اور (۳) مربی یعنی تربیت کرنے والا ہو۔ اس آیت پاک پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس عظیم رسول کی بعثت کی دعاء مانگی ہے، جو استاد کے مشفقانہ، مربیانہ اور ترحمانہ اوصاف کا مظہر اتم ہو۔ ذات یکتا و بے ہمتا نے اپنے خلیل کی اس دعاء کو قبول فرمایا اور نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو معلم انسانیت بناکر دنیا میں مبعوث فرمایا۔ چنانچہ حضرت سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے‘‘۔ (ابن ماجہ)
اساتذہ کے لئے اس سے بڑی سعادت مندی اور شرف کی بات کیا ہو سکتی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو معلم کے وصف سے متصف فرمایا ہے۔ دین متین میں تعلیم و تعلم کی بڑی اہمیت ہے۔ فرمان اقدس کی روشنی میں وہ شخص سب سے بہتر ہے، جو تعلیم و تعلم کے شغل سے وابستہ ہو۔ مذہبی نقطہ نظر کے علاوہ بھی بلالحاظ مذہب و ملت، قوم و وطنیت ہر سماج میں اساتذہ کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، چوں کہ ہر انسان جانتا ہے کہ اساتذہ کی تعظیم و تکریم دنیوی و اخروی زندگی میں کامیابی و کامرانی کی کلید ہے۔
ہر انسان کی زندگی میں استاد کا بڑا اہم کردار اور مقام ہوتا ہے، چوں کہ قوموں کی ترقی و بقا میں استاد کا اہم کردار ہوتا ہے۔ انسان چاہے سیاست داں ہو یا کاروباری، فنکار ہو یا درزی، مذہبی رجحان رکھنے والا ہو یا پھر کھیل کود کا شیدائی، ہر کسی کو علم کی ضرورت پڑتی ہے اور علم حاصل کرنے کے لئے استاد کی۔ یہی وجہ ہے کہ والدین کے بعد اگر انسان کسی ہستی کی دل و جان سے عزت کرتا ہے تو وہ استاد ہی ہے۔ دین متین میں استاد کے ادب و احترام بجالانے کی بڑی فضیلتیں بیان ہوئی ہیں، چنانچہ آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں ’’ضعیف مسلمان اور علم و حافظ قرآن، بادشاہ عادل اور استاد کی عزت کرنا تعظیم خداوندی میں داخل ہے‘‘۔ (ابوداؤد)
استاد وہ عظیم رہنما ہوتا ہے، جو اپنے طالب علم کی اخلاقی، تعلیمی اور روحانی تربیت کرتا ہے، جس کے باعث وہ اچھے اور برے میں تمیز کرنے لگتا ہے۔ تحتانیہ، وسطانیہ، فوقانیہ مدارس، اسکول، ہائی اسکول، کالج اور یونیورسٹی وہ دانش گاہیں ہیں، جہاں طالب علم نہ صرف علم حاصل کرتا ہے، بلکہ ان ہی علمی اداروں کی پرسکون اور علمی فضاؤں میں اس کی کردار سازی کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔ اگر گاڑی کی رفتار دھیمی ہو اور کوئی خطا یا لغزش ہو جائے تو حادثہ بھی معمولی نوعیت کا ہوگا، لیکن اگر گاڑی کی رفتار تیز تر ہو تو ذرا سی لغزش بڑے حادثہ کا سبب بن جاتی ہے۔ اسی طرح اگر کوئی عام انسان غلطی کرتا ہے تو اس کا نقصان بہت کم ہوتا ہے، چوں کہ وہ اس کی ذات تک محدود رہتا ہے، لیکن اگر استاد (جو دیگر کے لئے نمونہ عمل ہوتا ہے) غلطی کرجائے تو طلبہ کی ایک خاصی جماعت اس سے متاثر ہوتی ہے اور پھر وہ طلبہ اسی غلطی کو اپناکر سارے معاشرہ کی تباہی کا سبب بن جاتے ہیں۔ اسی لئے اساتذہ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے گفتار، رفتار، رہن سہن اور فکر و نظر کا خاص خیال رکھیں۔ اپنے شخصی و ذاتی مفادات اور گروہ بندیوں کو بالائے طاق رکھ کر طلبہ کی کردار سازی پر توجہ کریں، تب ہی صالح معاشرہ تشکیل پاسکتا ہے۔ مفسرین، محدثین، فقہاء، مصلحین، سیاست داں، سائنس داں، ڈاکٹرس، انجینئرس، وکلاء، صحافی، ادبا، شعرا وغیرہ ان ہی دانش گاہوں سے فارغ ہوتے ہیں، اگر ان کے کردار صاف و شفاف رہیں گے تو ان کا وجود معاشرہ کے لئے سود مند ثابت ہوگا اور اگر کردار میں گراوٹ ہوگی تو وہ انسانی معاشرہ کے لئے ناسور بن جائیں گے۔ لہذا اساتذہ کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ طالب علم کو معصیت سے اجتناب کی تلقین کریں اور ان کے ظاہر و باطن کو رذائل سے پاک و صاف کریں، تاہم اس کی اثر پزیری کے لئے پہلے خود اساتذہ کو ان چیزوں سے محترز رہنا پڑے گا۔ (باقی آئندہ)