کوئی تو آکے یہ بتلائے ہم کو
ہمارے درمیاں کیوں فاصلہ ہے
قوم پرستی کا نفرت انگیز مظاہرہ
مسلمانوں کے خلاف نفرت کی مہم نے راجستھان میں ایک اور مسلم نوجوان کی جان لے لی۔ یو پی سے آنے والے مزدور کو بچہ چوری کرنے کے الزام میں زدوکوب کرکے مار ڈالا گیا۔ متوفی محمد فیصل صدیقی پر حملہ کرنے والے نشانت مودی اور مہندر کی گرفتاری کا دعویٰ کرنے والی پولیس مجرموں کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے نازک صورتحال کو کمزور بنانے میں اہم رول ادا کررہی ہے۔ ہندوستان میں اسلام فوبیا نے اکثریتی طبقہ کے غنڈہ عناصر کو بے قابو کردیا اور سرکاری نظم و نسق ان غنڈہ عناصر کی سرکوبی کے لئے کوئی ٹھوس قدم اٹھانے سے قاصر ہے۔ جب سے مرکز میں بی جے پی حکومت آئی ہے، اس کے تعلق سے ملک کے سیکولر عوام کی واحد رائے یہی ہے کہ قوم پرستی کے نام پر ہندو ٹولے نے ملک کی تاریخی شناخت پر داغ لگانے کی حرکتیں شروع کی ہیں۔ عالمی سطح پر بھی ہندوستان میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر شدید تنقیدیں کی جارہی ہیں۔ حال ہی میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اپنی رپورٹ میں ہندوستان کی حکومت کو نشانہ بنایا ہے جس نے اقلیتوں کے خلاف بڑھتے تشدد کو روکنے میں کوئی مؤثر رول ادا نہیں کیا۔ حال ہی میں یو پی کے ٹاؤن کاس گنج میں یوم جمہوریہ کے موقع پر تشدد کرنے والوں نے مسلمانوں کو ہی نشانہ بنایا اور ان ہی کو مجرم ٹھہرا کر گرفتار بھی کیا گیا۔ نظم و نسق کی اس طرح یکطرفہ کارروائیوں نے ہندوستانی مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کا بہانہ فراہم کیا ہے۔ آسام میں مسلم آبادی میں اضافہ پر تشویش کا اظہار کرنے والے ہندوستانی فوج کے سربراہ کا ریمارک بھی افسوسناک ہے۔ فوجی سربراہ جنرل راوت کے اس بیان پر سیاسی پارٹیوں کی جانب سے شدید ردعمل ظاہر کرکے فوج کے رویہ پر تنقید کی گئی ہے۔ مسلمانوں کی تیزی سے ابھرتی آبادی پر تشویش رکھنے والی سیاسی زعفرانی طاقتوں نے ملک کے اہم اداروں کو بھی اپنے نظریہ کے مطابق استعمال کرنے لگی ہے تو یہ ہندوستان کی سلامتی و خوشحالی کے لئے ایک خطرناک صورتحال ہوگی۔ حکومت نے آسام کے مسلمانوں کے خلاف خفیہ طور پر کارروائی کرتے ہوئے انہیں غیرملکی قراردینے کا بھی ناپاک منصوبہ بنایا ہے تو یہ افسوسناک تبدیلی ہوگی۔ آسام میں برسوں سے رہنے والے مسلمانوںکو غیرقانونی بنگلہ دیشی قرار دے کر تارکین وطن کی شناخت کے لئے عام شہریوں کی ایک فہرست تیار کی جارہی ہے۔ ان لاکھوں مسلمانوں کو غیرملکی قرار دے کر ان کی شہریت و قومیت چھین لینے کی کوشش کی جارہی ہے تو اسے روکنے کے لئے تمام سیکولر سیاسی پارٹیوں کو سرگرم ہوجانا چاہئے۔ آسام میں 15 تا 20 لاکھ مسلمانوں کو ان کی شناخت سے محروم کردیا گیا تو یہ لوگ اپنی سرزمین سے بیدخل بھی کئے جاسکتے ہیں۔ آسام کی سرحد سے اگر غیرقانونی تارکین وطن ہندوستان میں داخل ہورہے ہیں تو ان کو روکنے کے لئے حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر اس ملک کی انٹلیجنس بنگلہ دیش سے آسام میں داخل ہونے والے شہریوں کو روکنے میں اپنا فریضہ کیوں ادا نہیں کیا۔ جنرل راوت نے اپنی سرحدی ذمہ داریوں کے درمیان سیاسی بیانات کو ترجیح دینا شروع کیا ہے تو اسے سیاست میں فوج کی مداخلت سمجھا جائے گا۔ فوج میں اگر سیاسی جذبہ کو فروغ دینے کی کوشش کی جاتی ہے تو اس کے بھیانک نتائج برآمد ہوں گے۔ فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت کو فکر ہیکہ شمال مشرقی ریاستوں میں بنگلہ دیش سے نقل مکانی کرکے آسام میں آنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔ تارکین وطن کے سرحد عبور کرنے کے واقعات کے پیچھے پاکستان اور چین کو ذمہ دار ٹھہرا کر یہ بھی کہا گیا کہ یہ دونوں ممالک ہندوستان کے خلاف بالواسطہ جنگ کررہے ہیں۔ اس طرح ایک ذمہ دار فوجی آفیسر نے پڑوسی ملکوں کے درمیان امن و امان کی بحالی کیلئے اپنی خدمات انجام دینے کے بجائے ان میں بے بنیاد شک و شبہ بھی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ بی جے پی کی حکومت بعض قومی اداروں سے وابستہ افراد کو اس بات کی تشویش ہے کہ آسام میں بدرالدین اجمل کی پارٹی آل انڈیا یونائیٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (اے آئی یو ڈی ایف) نے تیزی سے ترقی کرلی ہے۔ ملک میں بی جے پی کی طاقت میں اس قدر جلد اضافہ نہیں ہوا جتنا آسام میں بدرالدین اجمل کی پارٹی کی طاقت بڑھ رہی ہے۔ فوجی سربراہ کو اس بات کا غم کھائے جارہا ہے تو یہ سراسر سیاسی مداخلت کاری ہے۔ ہندوستانی سیاست میں فوج کا کوئی رول نہیں ہوتا مگر جب سے بی جے پی حکومت آئی ہے ہر ادارہ کے سربراہ کا نظریہ قومی پارٹی کی قیادت سے ہم آہنگ ہوتا جارہا ہے جو ایک سیکولر اور جمہوری ہندوستان کے مستقبل کیلئے خطرناک ہوگا۔
وزیراعظم کناڈا کا دورہ ہند
کناڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کے دورہ ہند اور ان کی تفریح کے تعلق سے دلچسپ تبصروں کے درمیان وزیراعظم ہند نریندر مودی سے ان کی ملاقات کو تاریخی اہمیت دی جارہی ہے۔ وزیراعظم کناڈا کی حیثیت سے ٹروڈو نے ہندوستان کا 8 روزہ دورہ کیا۔ اسے تاریخ کاسب سے طویل سرکاری دورہ کہا گیا۔ ان کے ہمراہ اہلیہ اور بچے بھی تھے۔ اس دورہ کی خصوصیت کچھ نہیں تھی۔ بظاہر ٹروڈو صرف ہندوستان کی سیر کرنا چاہتے تھے تاہم اپنے دورہ کے آخری مرحلہ میں وزیراعظم نریندر مودی سے ان کی ملاقات کے بعد ان کا دورہ سرکاری نوعیت کا ہوگیا۔ دیگر ممالک کے سربراہوں کے ساتھ حکومت ہند کے سربراہ کا رول مختلف ہوتا ہے مگر اس مرتبہ نریندر مودی نے اپنے کناڈا کے اس مہمان کے لئے پروٹوکول کا خاص خیال رکھا جبکہ اسرائیل کے وزیراعظم بنجامن نتن یاہو کے دورہ کے موقع پر انہوں نے پروٹوکول کو بالائے طاق رکھ کر ایرپورٹ پر بہ نفس نفیس پہنچ کر استقبال کیا تھا۔ بہرحال ایک ترقی یافتہ ملک کے وزیراعظم کی حیثیت سے جسٹن ٹروڈو نے اپنے دورہ کو کامیاب بنانے کی کوشش کی۔ وزیراعظم مودی نے بھی اس ملاقات کے بعد ٹوئیٹر پر لکھا کہ کناڈا کے وزیراعظم سے بات چیت ثمرآور رہی۔ ہماری بات چیت میں ساری توجہ ہند۔ کناڈا تعاون کو مزید فروغ دینے پر مرکوز رہی۔ سرمایہ کاری، تجارت، توانائی اور عوام سے عوام کے مضبوط رابطہ کے بشمول مختلف شعبوں میں ہند ۔ کناڈا کے درمیان معاہدوں کے بعد وزیراعظم مودی نے مسٹر ٹروڈو کو بتایا کہ ہندوستان فطری حلیف ملک ہے اور کناڈا کے ساتھ اس کی دوستی بھروسہ مند حد تک پروان چڑھی ہے۔ کناڈا کی یونیورسٹیوں میں زیرتعلیم طلباء میں ہندوستانی طلباء کی تعداد زیادہ ہے۔ ہندوستان کے لئے کناڈا بھی دیگر مغربی ملکوں کی طرح ایک بہترین حلیف دوست ملک ہے۔