آؤ کہ محبت کا ہم آغاز تو کرلیں
آغاز سے پہلے کوئی انجام نہیں ہے
قوم پرستی و سکیولر ازم پر وزیر داخلہ کا بیان
ہندوستان میں جس وقت سے نریندر مودی کی زیر قیادت این ڈی اے کی حکومت اقتدار پر آئی ہے اس وقت سے سکیولر ازم پر مباحث شروع ہوگئے تھے ۔ کچھ گوشے ملک کے دستور کے دیباچہ سے لفظ سکیولر ازم کو حذف کرنے کی بات کرنے لگے تھے ۔ یہ بحث ہنوز جاری ہے اور ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اقتدار میں ساری معیاد اس پر مباحث کا سلسلہ جاری رہے گا ۔ حالیہ دنوں میں قوم پرستی پر مباحث شروع ہوگئی ہے ۔ یہ تاثر عام ہوتا جارہا ہے کہ سماج کا جو کوئی گوشہ حکومت کے خیال سے اتفاق نہیں کرتا اور حکومت کے اقدامات کی مخالفت کرتا ہے اسے قوم پرستی کا لیبل چپکا دیا جاتا ہے اور اس کے خلاف قانونی کارروائی سے گریز نہیںکیا جاتا ۔ سماج میں ان دونوں مسائل پر مباحث چل رہے ہیں اور ایک طرح کی بے چینی کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔ اس کے باوجود ایسا لگتا ہے کہ حکومت اپنے ہی موقف پر اٹل ہے اور وہ چاہتی ہے کہ سارا ملک اور سماج کے تمام طبقات میں اس کی اپنی رائے کو تسلیم کرلیا جائے اور حکومت جو کچھ کہہ رہی ہے اور کر رہی ہے اس کو قبول کرتے ہوئے اس کی تائید و حمایت کی جائے ۔ اپوزیشن جماعتیں ہوں یا غیر سرکاری تنظیمیں ہوں یا پھر طلبا برادری ہی کیوں نہ ہو ‘ اگر ان میں سے کوئی بھی حکومت کے خیال سے اتفاق کرنے کو تیار نہیں ہے تو حکومت اس کے خلاف کارروائی پر اتر آئی ہے ۔ ان حالات میں وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ اور وزیر اعظم نریندر مودی سے وقفہ وقفہ سے مختلف گوشے اظہار خیال کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ آج وزیر داخلہ نے راجیہ سبھا میں بیان دیا کہ سکیولر ازم پر سیاست نہیں کی جانی چاہئے ۔یہ انتہائی اہم مسئلہ ہے اور سب کو مل کر ملک کے امیج کو بہتر بنائے رکھنے کیلئے کوشش کرنی چاہئے ۔ یہی بات اپوزیشن جماعتیں بھی کہتی آرہی ہیں کہ ملک میں دستور ہند نے سکیولر ازم کو بنیادی مقام دیا ہے اور اس کا احترام کیا جانا چاہئے ۔ اس پر کسی طرح کی سیاست نہیں ہونی چاہئے ۔ حکومت نے آج یہی بات کہی ہے لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ حکومت کے قول و فعل میں یکسانیت نہیں ہے بلکہ اس میں واضح تضاد پایا جاتا ہے ۔ خاص طور پر قوم پرستی اور سکیولر ازم کے مسئلہ پر حکومت کہتی کچھ اور ہے اور کرتی اس کے بالکل برعکس ہے ۔
وزیر داخلہ کو راجیہ سبھا میں بیان دینے اور اپوزیشن کو تاکید کرنے کی بجائے خود اپنی پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ ‘ خود کابینہ کے اپنے رفقائے کار اور ہندوتوا تنظیموں کے قائدین و کارندوں پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ سب مل کر ملک کے دستور کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ سکیولر ازم کو مذاق بناکر رکھ دیا گیا ہے ۔ جس کے جو منہ میں آئے کہتا چلا جا رہا ہے ۔ ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ اقلیتی برادریوں سے تعلق رکھنے والے دوسرے فرقے بھی اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھ رہے ہیں۔ ملک کے کسی نہ کسی گوشے میں کسی نہ کسی رکن پارلیمنٹ ‘ وزیر یا لیڈر کی جانب سے اشتعال انگیزی اور ایسے بیانات کا سلسلہ جاری ہے جن سے نہ قوم پرستی کی مثال مل سکتی ہے اور نہ سکیولر ازم کا تحفظ ہوسکتا ہے ۔ مرکزی وزرا ہوں یا برسر اقتدار جماعت کے ارکان پارلیمنٹ ہوں ‘ کھلے عام ہندو مسلمان کی سیاست کر رہے ہیں اور ہندووں کو بدلہ لینے پر اکسایا جا رہا ہے ۔ کسی گوشے سے مسلمانوں کو پاکستان چلے جانے کا مشورہ دیا جا رہا ہے تو کوئی یہ ادعا کر رہا ہے کہ آئندہ چند برسوں میں ہندوستان صرف ہندووں کا رہ جائیگا ۔ وزیر داخلہ کو یہ جواب دینے کی ضرورت ہے کہ کیا یہی باتیں ملک کے دستور میں شامل ہیں ۔ کیا یہی کچھ سکیولر ازم کہا جاسکتا ہے ۔ کیا یہی کچھ رواداری ہے جس کی ہندوستان صدیوں سے علامت رہا ہے ۔ کثرت میں وحدت کی تصویر کو اس طرح کے بیانات سے مسخ نہیں کیا جا رہا ہے ؟ ۔ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا وزیر داخلہ ہو یا وزیر اعظم ہوں انہیں قوم کے سامنے جواب دینے کی ِضرورت ہے ۔
وزیر داخلہ نے راجیہ سبھا میں جس طرح کا بیان دیا ہے اگر حکومت اس پر خود بھی عمل کرتی ہے اور برسر اقتدار جماعت کو اس پر عمل کیلئے سب سے پہلے تیار کیا جاتا ہے تو پھر اس کو خوش آئند کہا جاسکتا ہے ۔ ورنہ صرف زبانی جمع خرچ سے ملک میں بے چینی کی جو کیفیت پیدا ہوئی ہے اس پر نہ قابو پا یا جاسکتا ہے اور نہ سکیولر ازم اور قوم پرستی کے جذبہ کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ آج ملک میں قوم پرستی اور کے سرٹیفیکٹ تقسیم کرنے والے ہی قوم پرستی اورسکیولر ازم کی بنیادیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ صرف ایک مخصوص نظریہ اور اپنے خیالات کو سارے ملک پر مسلط کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ان کوششوں کے نتیجہ میں ملک میں اتحاد و یکجہتی کی جو فضا ہے وہ متاثر ہوسکتی ہے اور یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر مرکزی حکومت کو سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے توجہ دینے اور صورتحال کو فوری طور پر قابو میں کرنے کی ضرورت ہے ۔