جدوجہد آزادی میں اہم کردار ادا کرنے والی حیدرآبادی خاتون کی خدمات فراموش
مولوی علا الدین اور جئے ہند کا نعرہ دینے والے صغرا بی بھی نظر انداز
حیدرآباد ۔ 21 ۔ اگست : ملک کے سب سے باوقار ایوارڈ بھارت رتن کے لیے مجاہد آزادی سبھاش چندر بوس ، افسانوی ہاکی کھلاڑی دھیان چند ، سابق وزیر اعظم اور بی جے پی کے اعتدال پسند قائد اٹل بہاری واجپائی ، بی ایس پی کے بانی کانشی رام اور ممتاز مصور راجہ روی ورما کے نام لیے جارہے ہیں جب کہ اس باوقار اعزاز کے لیے اہم سیاسی قائدین ، معزز اداروں اور ریاستی حکومتوں نے کم از کم 50 شخصیتوں کے ناموں کی سفارش کی ہے جن میں بقول آندھرائی سیاستدانوں و دانشوروں کے قومی پرچم کا ڈیزائن تیار کرنے والے پنگالی وینکیا کے نام کی بھی سفارش کی گئی تھی ۔ لیکن حکومت آندھرا پردیش اور پنگالی وینکیا ٹرسٹ حیدرآباد کی جانب سے پیش کردہ سفارش قبول نہیں کی گئی ۔ جہاں تک ہمارے وطن عزیز کے قومی پرچم کا سوال ہے اس کا ڈیزائن کسی پنگالی وینکیا یا اینی سینٹ نے تیار نہیں کیا بلکہ حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی ایک تعلیم یافتہ خاتون اور بدر الدین طیب جی آئی سی ایس کی اہلیہ محترمہ ثریا طیب جی نے تیار کیا تھا وہ حیدرآباد دکن کی ممتاز شخصیت سر اکبر حیدری کے خاندان سے تعلق ر کھتی تھیں ۔ محترمہ ثریا طیب جی نے جہاں ملک کی تحریک آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا وہیں اپنی پینٹنگز کے ذریعہ لوگوں میں آزادی کا جذبہ پیدا کرتی رہیں ۔ وہ ایک بہت اچھی مصور بھی تھیں ۔ 22 جولائی 1947 کو دستور ساز اسمبلی میں جس کمیٹی نے قومی پرچم پیش کیا وہ 74 خاتون ارکان پر ہی مشتمل تھی جن میں بلبل ہند سروجنی نائیڈو ، زہرہ انصاری ، زرینہ کریم بھائی ، سکینہ نعمانی ، قدسیہ عزیز رسول ، شریفہ حامد علی ، عائشہ احمد ، اندرا گاندھی اور خود ثریا طیب جی جیسی خواتین شامل تھیں ۔ یہ اور بات ہے کہ 1921 میں پنگالی وینکیا کی جانب سے قومی پرچم کا جو ڈیزائن پیش کرنے کے دعوے کئے جاتے ہیں وہ موجودہ قومی پرچم سے بالکل مختلف تھا ۔ واضح رہے کہ ثریا طیب جی نے 1916 میں مہاتما گاندھی کو قومی ترنگے کے ایک نہیں دو نہیں بلکہ 30 ڈیزائن پیش کئے تھے اور بالاخر ان کے تیار کردہ ڈیزائن کو ہی منظور کیا گیا اور آج 15 اگست ہو یا 26 جنوری لال قلعہ راشٹرپتی بھون ، سرکاری دفاتر کی عمارتوں ، اسکولوں ، کالجوں اور گلی گلی میں ثریا طیب جی کا ڈیزائن کردہ ترنگا لہرا جاتا ہے ۔ لیکن افسوس کہ متعصب ذہنوں نے جن کے دل فرقہ پرستی کے زنگ آلودہ ہیں ۔ مسلمانوں کے کارناموں اور ان کی قربانیوں و کاوشوں کو جان بوجھ کر قوم کی نظروں سے دور کردیا تاکہ انہیں اپنے بغیر سیاسی مفادات کی تکمیل میں آسانی ہو ۔ آج ہم ہندوستانی بڑے فخر سے جئے ہند کا نعرہ بلند کرتے ہیں لیکن بہت کم ہندوستانیوں کو معلوم ہے کہ ساری قوم کو اس نعرہ کا تحفہ دینے والا کوئی اور نہیں بلکہ حیدرآباد کے ایک معزز خاندان سے تعلق ر کھنے والے انجینئر ابوالحسن صغرانی زین العابدین ابوالحسن تھے ۔ گرامر اسکول حیدرآباد کے اس طالب علم کو سبھاش چندر بوس کے ساتھ رہنے کا بھی اعزاز حاصل رہا ۔ نیتاجی سبھاش چندر بوس کی خواہش پر ہی انہوں نے جئے ہند کا نعرہ تحریر کیا تھا ۔ اسی طرح حیدرآباد کے مولوی علاء الدین جنہیں کالے پانی کی سزا پانے والے پہلے ہندوستانی مجاہد آزادی ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔ انہیں بھی صرف اور صرف اس لیے فراموش کردیا گیا کیوں کہ وہ مسلمان تھے ۔ مولوی علاء الدین کو اس بات کا بھی اعزاز حاصل ہے کہ انہیں موت کے بعد ہی کالے پانی کی سزا سے راحت ملی ۔ کاش حکومت بھارت رتن ایوارڈس ان غیر معمولی مسلم شخصیتوں کو دینے کا اعلان کرتی تو کتنا اچھا ہوتا ۔ واضح رہے کہ بھارت رتن ایوارڈ دینے کا آغاز 1954 سے ہوا ۔ اس سال تین شخصیتوں بشمول ڈاکٹر سروے پلی رادھا کرشنا اور سر سی وی رامن کو دئیے گئے اور حسن اتفاق سے ان تینوں کا تعلق ٹاملناڈو سے تھا ۔ جب کہ 1954 سے 2014 تک جن 43 شخصیتوں کو اس اعزاز سے نوازا گیا ان میں صرف 5 مسلم شخصیتیں ڈاکٹر ذاکر حسین 1963 ، سرحدی گاندھی ڈاکٹر خان عبدالغفار خاں 1987 ، مولانا ابوالکلام آزاد 1992 ، ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام 1997 اور استاد بسم اللہ خاں شامل ہیں ۔ اس سلسلہ میں ہم نے انسانی حقوق کے جہد کار حیدرآبادی تہذیب کی نمائندہ شخصیت کیپٹن پاونڈو رنگاریڈی سے بات کی ۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں ملک کی آزادی اور ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والے مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی سے شدید تکلیف ہوتی ہے ۔ انہوں نے وزارت داخلہ کو ایک مکتوب روانہ کرتے ہوئے مسلم مجاہدین آزادی سے روا رکھی جانے والی نا انصافی کیخلاف احتجاج کیا ہے۔ کیپٹن پانڈو رنگاریڈی کے مطابق چیف منسٹر کے سی آر کو چاہئے کہ شہر میں مولوی علاء الدین ، طرہ باز خاں ، ثریا طیب جی اور انجینئر ابوالحسن صغرانی کی یادگاریں قائم کرے ۔۔
mriyaz2002@yahoo.com