نئی دہلی۔ یکم؍فروری (سیاست ڈاٹ کام)۔ سی پی آئی ایم امکان ہے کہ قومی سطح پر علاقائی پارٹیوں سے مزید اتحاد نہیں کرے گی اور بائیں بازو کے اتحاد کو ملک گیر سطح پر اولین ترجیح دے گی، کیونکہ بائیں بازو کی طاقت میں انحطاط پیدا ہورہا ہے۔ پارٹی نے کہا کہ تاہم غیر بائیں بازو پارٹیوں سے ریاستوں میں مفاہمت کی جاسکتی ہے۔ جہاں بھی ضروری ہو، پارٹی کے مفادات کی دیکھ بھال کی جائے گی۔ سی پی ایم نے کہا کہ اگر موجودہ سیاسی صورتِ حال برقرار رہے تو موجودہ مرحلہ پر پارٹی کے موجودہ کردار کے لحاظ سے قومی سطح پر علاقائی پارٹیوں سے اتحاد کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سی پی آئی ایم نے اپنی سیاسی حکمت ِ عملی پر نظرثانی رپورٹ کا مسودہ جاری کیا ہے جس پر اس کے تمام قائدین اور کارکن ملک گیر سطح پر مباحث منعقد کریں گے اور بعد ازاں اس کو پارٹی کی 21 ویں کانگریس میں جو وشاکھاپٹنم میں 14 اپریل تا 17 اپریل مقرر ہے، بحث کی جائے گی۔ پارٹی نے کہا کہ سیاسی صورتِ حال میں تیز رفتار تبدیلیاں بھی ممکن ہیں۔ امکان ہے کہ بورژوائی پارٹیوں میں داخلی اختلافات اُبھر آئیں۔ پارٹیوں میں پھوٹ بھی پڑسکتی ہے اور نئے اتحاد بھی قائم ہوسکتے ہیں۔ مشترکہ پلیٹ فارمس قائم ہوسکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ہم بھی مخصوص سیاسی اور عوامی مسائل پر پلیٹ فارم قائم کریں۔ بائیں بازو اور جمہوری محاذ اور پروگرام کو ترقی دی جانی چاہئے۔ اس کے حصہ کے طور پر اس میں توسیع اور بائیں بازو کے اتحاد میں گہرائی کی کوششیں کی جانی چاہئیں۔ بایاں بازو محاذ قائم کرنے کو ترجیح دی جانی چاہئے۔ انتخابی حکمت ِ عملی ضمنی مقام پر ہے۔ پارٹی نے کہا کہ فرقہ واریت نے کارکنوں کے اتحاد میں خلل اندازی کی ہے۔ فرقہ وارانہ خطرہ ایک ہتھیار کے طور پر برسراقتدار طبقات استعمال کررہے ہیں تاکہ عوام میں خوف پیدا کیا جاسکے۔ اپنی نو فراخدل پالیسیوں اور بورژوائی زمین داری نظام کے ذریعہ عوام میں بے چینی پیدا کی جارہی ہے۔ اکثریتی فرقہ فرقہ پرستی کا عروج اقلیتی فرقہ پرستی پیدا کرتا ہے جس کا مقابلہ کرنا ضروری ہے۔