مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیم ؔ
معراجِ شریف کے موقع پر جب حضرت نبی پاک سیدنا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عالم برزخ کا مشاہدہ فرماتے ہوئے ایک منظر ملاحظہ فرمایا کہ ایک ایسی قوم ہے آگ کی قینچیوں سے جن کے ہونٹ کاٹے جارہے ہیں، دریافت حال پر حضرت جبرئیل امین علیہ السلام نے بیان کیا کہ اہل دنیا کے یا آپ کی امت کے یہ ایسے خطباء ہیں جو اوروں کو تو نیکی کا حکم کیا کرتے تھے لیکن خود نیک عمل نہیں کرتے تھے اور نیکی کی راہ پر نہیں چلتے تھے، دوسروں کی فکر اور اپنے حال سے بے خبر، گویا اس کی تعبیر کچھ اس طرح کی جاسکتی ہے جس طرح ایک شاعر نے اپنے شعر میں بیان کی ہے،گویا شاعر نے اس شعر میں ان لوگوں کی عکاسی کی ہے جو اپنے آپ سے غافل اور دوسروں کیلئے فکر مند رہتے ہیں، اپنی اصلاح کی طرف کبھی توجہ نہیں ہوتی نہ اس کی توفیق ملتی ہے، لیکن دوسروں کی اصلاح ان کو عزیز رہتی ہے۔
أٹی رہی مرے چہرہ پہ ماہ و سال کی گرد
میں سارے شہر کے آئینے صاف کرتا رہا
یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ کوئی عمل سے پہلو تہی کر کے اپنے دل کے چہرہ کو تو غبار آلود رکھے اور دوسروں کے دلوں کو چمکانے اور ان کے قلوب کے زنگ کو دور کرنے کی کوشش میں لگا رہے۔ اس میں ہدایت کے پھول ہیں ان کے لئے بھی جو بے علم ہیں اور ان کے لئے بھی جو بے عمل ہیں، کہ وہ علم و عمل کی روح سے اپنی بے جان ایمانی زندگی کو حیات بخشیں۔
ساری امت علم و عمل کے پیکر میں ڈھل جائے اور قول و عمل میں یکسانیت کا مظہر بن جائے، اور ایک اچھا نمونہ انسانیت کو دے تاکہ اسلام کی وہ خوبی جو پیغامِ حق پر خود عمل کر کے دوسروں کو پیغام دینے کی ہے، وہ سب پر کھل سکے،زبان حقیقت میں دل کی ترجمان بنی رہے جو بات دل میں ہو وہی زبان پر ہو جو انسان حقیقت میں انسان ہوں اور ان کی نسبت الہ واحد سے سچی ہو تو وہ ہر خوف سے عاری اور اپنے خالق و مالک کے خوف سے لرزاں و ترساں رہتے ہیںان کے دل میں جو بات ہوتی ہے وہی ان کی زبان پر آتی ہے، گویا ان کی زبان دل کی رفیق ہوتی ہے۔
ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق
یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق
وہ قول جس پر پہلے عمل ہو اپنے اندر مقناطیسی کشش رکھتا ہے جو اوروں کو پیغام دینے والے کے قریب کھینچتا ہے، اسی کی آج دنیا کو بڑی ضرورت ہے کہ ایسے باعمل علماء اور خطباء امت میں بکثرت ہوں کہ ان کی بات ان کا عمل اور ان کی زندگی کی ایک ایک جھلک دوسروں کو روشنی حاصل کرنے پر مجبور کرے، حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمہ اللہ کے حوالے سے ایک بصیرت افروز واقعہ کتب سیر میں ملتا ہے، واقعہ یہ ہے کہ ایک خاتون اپنے جگر گوشہ کو جو میٹھا کھانے کا بہت شوقین تھا
حضرت بابا صاحب کی خدمت میں لئے ہوئے حاضر ہوئی اور خواہش کی کہ وہ اس کے جگر گوشے کو میٹھا نہ کھانے کی نصیحت کرے، حضرت بابا صاحب نے تو اس وقت کوئی نصیحت نہیں کی اور یہ کہا کہ اتنے دن بعد بچے کو پھر لے آئے تب میں اس کو نصیحت کروں گا، نصیحت سے گریز کی جو وجہ لکھی گئی ہے وہ یہ کہ حضرت بابا صاحب خود بصد شوق میٹھا نوش فرمایا کرتے تھے، شاید یہ احساس ان کے دل میں تازہ ہو گیا تھا کہ میں خود اس پر عمل پیرا نہیں ہوں تو میری نصیحت کیسے کار گر ہوسکتی ہے، چنانچہ حضرت بابا صاحب نے میٹھا نوش کرنا چھوڑ دیا اور دوبارہ جب ماں اپنے بچے کو لے کر حاضر ہوئی تو آپ نے اس بچے کو نصیحت فرمائی یہ گو کہ ایک حکایت ہے لیکن اس میں حکمت کے بیش قیمت موتی ہیں، وعظ و بیان کرنے والے اور امت کی خیرخواہی کو پیش نظر رکھتے ہوئے نصیحت کرنے والوں کے لئے ایک عظیم پیغام ہے۔
آج کی دنیا نے جہاں ترقیات اور نئی نئی ایجادات کے ذریعہ مادّی اعتبار سے بہت کچھ پایا ہے، لیکن جتنی ترقی مادّیات میں ہورہی ہے اتنی ہی زیادہ کمی روحانیت میں آتی جارہی ہے، دنیا کو آج روحانیت کی ضرورت ہے اور روحانیت ہی اس دنیا کو سکینت سے بھر سکتی ہے اور یہ نعمت اسلام کے فطری و سادہ احکامات پر عمل سے مل سکتی ہے،
پہلے دور میں جیسے مادّی اشیائے تعیش کی کمی تھی، لیکن ان کے روحانی واخلاقی اقدار بڑے مضبوط تھے اور آج مادّی اشیائے تعیش کی جتنی فراوانی ہے، روحانی اقدار کی اسی قدر زبوں حالی ہے، مادّی اشیائے تعیش کی ارزانی کے ساتھ اس دور میں خطبات و مواعظ کی بھی ارزانی ہے، ساری دنیا میں تقریر و بیان کا دور دورہ ہے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ یہ دور صرف کہنے اور حظ نفس کے لئے سننے کا ہوگیا ہے، سنانے والوں کی بھی کثرت ہے اور سننے والوں کی بھی، لیکن جس کہنے اور سننے میں اخلاص نہ ہو اس سے اچھے ثمر کی امید کیسے کی جاسکتی ہے، حضرت نبی پاک سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فصاحت و بلاغت کے امام زبان و بیان پر ایسی قدرت کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں تو گھنٹوں بیان فرما سکتے لیکن آپ کی شانِ پاک کی انفرادیت اور اس کا کمال ’’جوامع الکلم‘‘ ہونا ہے، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبات و مواعظ بڑے مختصر مگر جامع ہوا کرتے،’’خیر الکلام ماقلّ و دلّ‘‘ کی شان بدرجہ اتم جلوہ گر رہتی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شمائل بیان کرتے ہوئے محدثین لکھتے ہیں
’’یقصر الخطبۃ و یطیل الصلوٰۃ‘‘کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ مختصر اور نماز دراز ہوتی، اب یہ دور چونکہ صرف کہنے اور سننے کا ہو کر رہ گیا ہے اس لئے بعض مقامات پر تقریر بڑی طول و طویل ہوتی ہے لیکن نماز مختصر۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ بات مختصرہو مگر جامع اور مدلل ہو اور اپنے موضوع پر محیط ہو اور موضوع بھی مناسب حال منتخب کیا گیا ہو جس سے سننے والوں کو ایک پیغام ملے وہ پیغام جو ان کے دل کی گہرائیوں میں اترنے کے ساتھ ان کی زندگی کو اس کی عملی جلوہ گاہ بنا نے میں مدد گار ہو۔ کہنے اور سننے کے ساتھ عمل کو اہمیت دی جائے اور جو کچھ کہا جاتا ہے اور سنا جاتا ہے اس پر عمل کیا جائے عمل سے پہلو تہی کا جو داغ امت کے دامن پر لگ گیا ہے اس کو دور کرلیا جائے۔ اس طرح ہمارے کہنے سننے اور عمل میں یکسانیت پیدا ہو جائے جو کچھ کہتے اور سنتے ہیں اس کے ہم ایک عملی پیکر بن کر دنیا کو یکسانیت قول و عمل کا پیغام دیں۔تاکہ اس سے دنیا کو روشنی مل سکے اور معاشرہ یکسانیت قول و عمل کی جلوہ گاہ بن جائے۔