قول و عمل میں یکسانیت

مولانا مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیم ؔ

یہ امت خیر امت ہے ’’ کنتم خیر امۃ ‘‘ اور یہ منصب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس امت کو اپنے بے نہایت فضل سے عطا فرمایا ہے، پھر اس منصب کے دیئے جانے کی وجہ’’ اخرجت للناس‘‘ سے بیان فرمائی گئی ہے، یہ منصب اس امت کو دیا ہی اس لئے گیا ہے کہ وہ دوسروں کے کام آئے اور اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں کو جو نعمت ایمان سے محروم ہیں ان کو ایمان و معرفت کی راہ دکھائے یہ امت ایک منتخبہ امت ہے اس انتخاب کی غرض و غایت ہی یہی ہے کہ وہ توحید کے نور سے محروم انسانیت کو پیغامِ توحید سے روشناس کروا کر منتخبہ امت کے زمرہ میں شامل کروائے، یہ امت اسی لئے خیرالامم ہے کہ وہ خیر الانبیاء والمرسلین رحمۃ اللعالمین سید نا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے پیام رحمت کی امین ہے، ساری انسانیت کو پیام رحمت دینے والی امت کب اس پیغام حق پر عمل سے بیگانہ رہ سکتی ہے، ظاہر ہے

ایمان و معرفت اور اس کے تقاضوں کی تکمیل کی رہنمائی کا فریضہ ایسی کوئی بے قیمت شئے نہیں ہے کہ جس پر رہنمائی کرنے والا خود عمل پیرا نہ ہو اس پیغامِ رحمت سے عملاً دور رہتے ہوئے اگر صرف پیام پہونچادینے ہی کو اپنی ذمہ داری سمجھا جائے تو یہ ’’ اُو خود گمشتہ است کرا رہبری کند‘‘ کے مصداق ہوگا ، پیغامِ رحمت پر پہلے عمل پیرا ہو کر دوسروں تک پیام پہونچانا بڑا موثر ثابت ہوسکتا ہے، اور وہ انسانی سینوں میں اپنی جگہ بناتا ہے، حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی یہ عادت تھی کہ خیر پر عمل کرنے اور خیر کو دوسروں تک پہونچانے کی غرض سے اکثر حضرت نبی پاک سید نا محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر لیا کرتے، چنانچہ ایک موقع پر یہی بات دریافت کرنے کی غرض سے آپس میں مشورہ ہوا اور سوال کیا گیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ سبحانہ کو سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کونسے ہیں، اس سوال سے مقصود یہی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات معلوم ہو جائے تو اس پر عمل کیا جائے تاکہ اس سے اللہ کا قرب نصیب ہو سکے، لیکن حدادب اس قدر مانع رہی باوجود مشورہ کے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کوئی بھی سوال کی جرأت نہیں کر سکا، رحمت الہی کو جوش آیا اور اس نے اپنی رحمتیں نچھاور فرماتے ہوئے ان آیات پاک کو نازل فرمایا۔ ’’اے ایمان والو تم آخر وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر تم خود عمل نہیں کرتے، اس طرح جس پر تم خود عمل پیرا نہ ہو اور دوسروں سے کہو یہ اللہ کو سخت نا پسند ہے ‘‘ (۶۱/۲۔۳)

روایات حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اچھے اعمال کا علم ہوجانے کے بعد اس کو دل وجان سے پورا کرنے کے جذبات کا جنہوں نے اظہار کیا تھا ان میں کچھ ایسے بھی تھے کہ اچھے عمل کے بارے میں معلوم ہوجانے کے باوجود وہ اس کو پورا نہیں کرسکے تھے۔ ان آیات پاک میں ان کیلئے بھی تنبیہ ہے ۔البتہ وہ نیک دل اور پاک پاطن اصحاب جنہوں نے اس طرح کی گفتگو میں حصہ لیا تھا لیکن ان کے دل جذبہ عمل سے سرشار تھے اور دل وجان سے اس کو پورا کرنے کی طرف مائل تھے ۔ان کو بھی اس میں راہ دکھائی گئی ہے کہ وہ کہنے کے بجائے وقت پڑنے پر اخلاص کے ساتھ اس پر عمل کرلیتے یہ بہتر تھا ۔اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ جو کچھ جذبہ عمل کے ساتھ کرگزرنے کے عزم وارادہ کا اظہار کیا تھا اس کو پورا کرنے کے مواقع مل سکیںگے یا نہیں یہ احساس اگر تازہ ہوجاتا تو ظاہر ہے ایسا کوئی ادعاپیش نہیں کیا جاتا ، یہ بھی کہ اگر کسی کام کے مستقبل میں کرنے کا عزم وارادہ ہو اور وہ خیر ہی کا کام کیوںنہ ہو تب بھی اس کو ان شاء اللہ کے ساتھ مقید کرنے کی اللہ سبحانہ نے تلقین کی ہے۔ ارشاد ربانی ہے ’’ہر گز ہرگز کسی کا م کے بارے میں ایسا نہ کہیں کہ میں اسے کل کروں گا ‘‘ ہاں مگر ان شاء اللہ کی قید کے ساتھ ۔(۱۸/۲۳،۲۴)

ان حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کا قصد وارادہ گو کہ بصورت دعوی نہیں تھا لیکن چونکہ اللہ سبحانہ کی مشیت کے حوالے کرکے یہ بات نہیں کہی گئی تھی اس لئے اللہ سبحانہ نے اس کو پسند نہیں فرمایا ۔اسی سے فقہاء کرام نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ مستقبل میں کسی کا م کرنے کے ارادے کا زبان سے اظہار ہو لیکن دل میں اس کا کوئی ارادہ نہ ہو تو یہ عنداللہ سخت گناہ ہے۔اور دل کے ارادے کے ساتھ اس طرح کا اظہار اگراپنی طاقت وقوت پر بھروسہ کے ساتھ ہو تو یہ مکروہ ہے ،اس سے بھی منع کیا گیا ہے ۔عبدیت وبندگی کاتقاضہ یہی ہے کہ ایک بندہ ٔ مومن جب بھی مستقبل میں کسی کا م کرنے کے عزم وارادے کا اظہار کرے تو ضرور ان شاء اللہ کہہ لے ۔

اس میں خیر کا راستہ دکھایا گیا ہے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی اور قیامت تک آنے والے سارے انسانوں کو بھی۔ اب جو پسندیدہ عمل کے معلوم ہوجانے کے باوجود اس میں سستی کرے اور عملی کوتاہی کا ارتکاب کرے تو اس کیلئے اس میں زجرو توبیخ ہے کہ خیر کا پیغام دوسروں کو تو پہنچاتے ہو خود اس پر عمل سے کیوں گریز کرتے ہو، جس بات کی تم دوسروں کو نصیحت کرتے ہو پہلے خود اس پر عمل کیوں نہیںکر لیتے۔قول و عمل میں مطابقت ایمان کی شاہراہ ہے، اور قول و عمل کا تضاد ایک طرح سے نفاق کی علامت ہے، کتاب و سنت میں جابجا قول و عمل میں تضاد سے روکاگیا ہے،’’کہیں کچھ اور کریں کچھ‘‘ اس روش کو اسلام نے پسند نہیں کیا۔
چنانچہ قرآن پاک میں بنی اسرائیل سے خطاب کرتے ہوئے جہاں بہت سی ہدایات دی گئی ہیں، وہیں یہ ہدایت بھی دی گئی ہے، ’’کیا تم دوسروں کو نیکی و بھلائی کا حکم کرتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو کیا تم اتنی سمجھ نہیں رکھتے‘‘ (۲؍۴۴)۔

’’قول میں تاثیرقول پر عمل کرنے سے آتی ہے‘‘، اس نکتہ کو ہمیشہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے، اور بڑے پیمانے پر آج امت نے اس حقیقت کو فراموش کر دیا ہے گفتار کے تو بہت سے غازی مل جائیں گے لیکن کردار کے غازی بڑے نایاب ہیں، نتیجہ یہی ہے کہ ہماری بات بے اثر ہو کر رہ گئی ہے،’’العلم بلا عملٍ کالشجر بلاثمر‘‘ کے مصداق وہ علم اور وہ پیغام جس پر عمل نہ ہو وہ گویا بے پھل درخت کے مانند ہے، پھل دار درخت جس طرح نفع بخش ہوتاہے علم پر عمل کر کے علم پہونچانے والا بھی نفع بخش ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ جس پیغام حق پر پیغام دینے والا خود عمل پیرا ہو اس پیغام کی جڑیں دوسروں کے قلوب کی روحانی زمین میں بڑی مضبوطی سے پیوست ہو جاتی ہیں، اس سے پروان چڑھنے والا خیر کا درخت مضبوط اور سایہ دار ہوتا ہے اور اس سے نفع کی ایسی شاخیں پھوٹتی ہیں جو ایمانی حیات کو سرسبز و تازہ رکھتی ہیں۔ ظاہر ہے دل سے نکلنے والی بات یقینا اثر انداز ہوتی ہے اور قول و عمل کی یکسانیت ہی وہ انمول خزینہ ہے جو زبان کو تاثیر کے جوہر آبدار سے مرصع کر دیتا ہے، اور زبان سے نکلنے والی بات کی قوت پرواز بڑھ جاتی ہے ۔
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے