قوت الٰہی کے سامنے انسانی عقل ماند پڑجاتی ہے

سید زبیرہاشمی، معلّم جامعہ نظامیہ

نحمدہٗ ونصلی و نسلم علی رسولہ الکریم: اما بعد
معجزہ کے متعلق حضرت قاضی عیاض رحمۃ اﷲ علیہ وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’یہ بات بخوبی جان لینی چاہئے کہ جو کچھ انبیاء عظام علیہم الصلوۃ و السلام اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں اُسے ہم نے معجزے کا نام اس لئے دیا ہے کہ مخلوق اس کی مثل لانے سے عاجز ہوتی ہے۔ {الشفاء}
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ:
٭ معجزہ مروّجہ قوانین فطرت اور عالَم اسباب کے برعکس ہوتا ہے۔
٭ معجزے کا ظہور چونکہ رحمانی اور الوہی قوت سے ہوتا ہے اور عقل انسانی اس کے سامنے ماند پڑجاتی ہے اور تصویر حیرت بن کر سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ وہ اس کی حقیقت کا ادراک نہیں کرسکتی۔
٭ معجزہ نبی اور رسول کا ذاتی نہیں بلکہ عطائی فعل ہے اور یہ معجزہ عطا اﷲ رب العزت کی طرف سے ہوتا ہے۔

واقعہ معراج کی تفصیلات کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود بیان فرمایا۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے جس کا ترجمہ یہ ہے:
٭ ’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ چند فرشتے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما رہے تھے ، ان میںکے بعض نے کہا کہ بے شک آپ صلی اللہ علیہ وسلم سورہے ہیں اور بعض نے کہا کہ بے شک آنکھ سو رہی ہے اور دل جاگ رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بے شک تمہارے ان صاحب کی ایک مثال ہے تم اس کو ان کے لئے بیان کرو۔۔ان میں کے بعض نے کہا کہ وہ سو رہے ہیں اور بعض نے کہا کہ بے شک آنکھ سو رہی ہے اور دل جاگ رہا ہے۔

انہوں نے کہا : ان کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے کوئی گھر بنایا اور اس میں کھانے کی چیزیں تیار کیا اور ایک دعوت دینے والے کو بھیجا، پس جس نے دعوت دینے والے کی دعوت قبول کی وہ گھر میں داخل (بھی) ہوا اور کھانے کی چیزوں میں سے کھایا بھی اور جس نے دعوت دینے والے کی دعوت کو قبول نہ کی تو نہ وہ گھر میں داخل ہوا اور نہ کھانے کی چیزوں میں سے کھایا۔ ان (فرشتوں) نے کہا کہ ان کے لئے اس (مثال ) کی تاویل بیان کرو کہ وہ اسکو سمجھ رہے ہیں ، ان میں کے بعض نے کہا کہ بے شک وہ سو رہے ہیں اور بعض نے کہا کہ بے شک آنکھ سو رہی ہے اور دل جاگ رہا ہے۔ پس (مذکورہ مثال کی تاویل میں )انہوں نے کہا کہ گھر جنت ہے ، دعوت دینے والے محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہیں پس جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی تو یقینا اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی تو یقینا اس نے اللہ کی نا فرمانی کی ، پس محمد صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے درمیان فرق کرنے والے ہیں‘‘۔ (رواہ البخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ)

مذکورہ روایت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان بصیرت کا پتہ چلتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ تو اتنی باخبر ہے کہ قبر کے اندر کی چیزوں کا بھی مشاہدہ فرماتے ہیں۔ چنانچہ حدیث شریف میں بھی آتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے :

٭ ’’ حضرت ابن عباس ر ضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دو قبروں کے قریب سے گزر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک ان دونوں کو عذاب ہورہا ہے، اور اس عذاب کی وجہ یہ ہے کہ ان میں سے ایک چغلی کھاتا تھا اور ایک پیشاب سے احتیاط نہیں برتتا تھا۔ روای فرماتے ہیں کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک سبز رنگ کی شاخ لے کر اس کے دو ٹکڑے کئے اور ان دونوں قبروں پر ایک ایک ٹکڑا گاڑ دیا پھر فرمایا جب تک یہ خشک نہیں ہوں گے تب تک ان کے عذاب میں تخفیف ہوتی رہے گی‘‘۔ (صحیح بخاری۔ جلد اول)
٭ ’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز ہمارے درمیان قیام فرما ہوئے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مخلوقات کی ابتداء سے لے کر تمام جنتیوں کے جنت میں داخل ہو جانے اور دوزخیوں کے دوزخ میں داخل ہوجانے تک ہمیں سب کچھ بتادیا۔ جس نے اسے یاد رکھا، یاد رکھا اور جو اسے بھول گیا سو بھول گیا‘‘۔ (صحیح بخاری کتاب بدء الخلق)۔
٭ ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ میرے دوکاندھوں کے د رمیان اپنا دست قدرت رکھا یہاں تک کہ میں نے اپنے سینہ کے درمیان اس کی ٹھنڈک محسوس کی، پس میں نے ان تمام چیزوں کو جان لیا جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔‘‘ (سنن ترمذی جلد ۲)۔

حضرت شیخ الاسلام والمسلمین عارف باﷲ امام محمد انوار اﷲ فاروقی رحمۃ اﷲ علیہ {بانی جامعہ نظامیہ} یہی ارشاد فرماتے ہیں کہ رب تبارک و تعالیٰ اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام میں مناجات ہوتی رہی (فأوحیٰ اِلٰی عبدہ ما أوحیٰ) اور امت کے لئے ۵۰؍ نمازوں کا اعلان کیا گیا ۔ اس موقع پر نماز کی فرضیت سے اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ نماز مسلمانوں کے لئے معراج ہے ۔ جیساکہ حضور پاک علیہ السلام نے ارشاد فرمایا ألصلوۃ معراج المؤمنین ’’نماز مومنین کے معراج ہے‘‘ پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے تخفیف کے لئے خواہش کی، تو آپ ۹؍ مرتبہ بہ نفس نفیس تشریف لے گئے۔ ہر بار پانچ پانچ نمازیں تخفیف ہوتی گئیں اور صرف پانچ نمازیں قائم رہیں، جن کو ۵۰؍ کے برابر قرار دیا گیا۔ اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام دیدار الہٰی کے انوار کا بار بار مشاہدہ کرتے رہے۔ دنیا میں انہوں نے درخواست کی تھی کہ ’’ ربِّ ارنی انظر الیک ‘‘ اور یہ ان کی بڑی تمنا تھی ، لیکن ’’ لن ترانی ‘‘ آپ کو جواب ملا ، وہی موسیٰ علیہ السلام آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی ذات میں دیدار الہٰی کے انوار کا بار بار مشاہدہ کرتے رہے ۔
zubairhashmi7@gmail.com