ہر شخص کی زندگی میں کم و بیش ایسے حالات ضرور رونما ہوتے ہیں جن کی انسان اپنی تمام تر کوشش کے باوجود کوئی توجیہ نہیں کرسکتا۔ مثلاً حادثے سے بال بال بچ جانا ، مہلک بیماری سے نجات پاجانا ، موت کے منہ سے بچ کر چلے آنا ، اچانک کسی غیرمتوقعہ خوشی کا سامنا ہوجانا یادفعۃً حالات کا کوئی عیرمتوقعہ رُخ اختیار کرلینا وغیرہ ۔ اس لئے ایسے مواقعوں پر اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ تو ’’کوئی معجزہ‘‘ ہوگیا ورنہ یہ توقع نہ تھی‘‘ ۔ حقیقت میں ان باتوں کا معجزے سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ، البتہ اتنا ضرور ہے کہ یہ باتیں چونکہ عام روش سے ہٹ کر واقع ہوتی ہیں ، اس لئے ہم اس کو مافوق الفطرت خیال کر بیٹھتے ہیں۔ انبیاء کرام علیھم الصلاۃ والسلام سے اعلان نبوت کے بعد ظاہر ہونے والے معجزات اس سے قطعی مختلف اور بلند مقام کے حامل ہوتے ہیں۔ ان معجزات کے ذریعہ انبیاء کرام کی روحانی اور معنوی تائید کی جاتی ہے ۔ان کے لئے حیرت انگیز طورپر فطرت کے قوانین بدل دیئے جاتے ہیں یا ان کی صورت تبدیل کردی جاتی ہے ۔ ان کی عنداﷲ معقولیت کو واضح کرنے کے لئے ان کے ہاتھوں سے غیرمعمولی اُمور انجام پاتے ہیں۔ اسی بناء پر کم و بیش معجزے کا تصور ایک عالمگیر حیثیت رکھتا ہے اور ہرمذہب نے اسے اپنی اساس قرار دیا۔ حضرت نوحؑ کا طوفان ، حضرت ھود ؑکی بددعا پر قوم عاد کی تباہی ، ناقۂ صالح کی کونچیں کاٹنے پر قوم ثمود کی بربادی ، قوم لوطؑ کی نافرمانی پر نزول عذاب، حضرت ابراھیمؑ پر آتش نمرود کا سرد ہونا ، حضرت موسیٰؑ کے عصا کا سانپ ہونا ، فرعون اور اس کے حواریوں کی غرقابی ، حضرت عیسیٰؑ کا مردوں کو زندہ کرنا ، اندھوں کو بینائی سے مرحمت کرنا یہ سب تائید الٰہی کے ایسے مظاہر ہیں جو تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں اور ان سے کوئی شخص بھی انکار نہیں کرسکتا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا معجزات کسی مذہب یا کسی پیغمبر کی صداقت کی بنیادی اور اولین دلیل ہے یا ان معجزات کا درجہ ثانوی ہے اور اصل بنیادی دلیل کوئی اور شئی ہے ؟
قرآن مجید کے مطابق اساسی اہمیت عقل و شعور ، پیغمبران کرام کی سیرت اور ان کی تعلیمات کو ہے اور معجزات پیغمبر کی صداقت اور ان کی تاثیر و حمایت کیلئے ہیں۔ قرآن مجید میں عقل و خرد سے کام لینے کی ضرورت پر زور دیا گیا ، فرمایا : یہ لوگ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے اور اگر یہ خدا کے سوا کسی اور کا کلام ہوتا تو وہ اس میں بہت سا اختلاف پاتے ۔
قرآن حکیم سابقہ انبیاء کرام کے علاوہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے متعدد معجزات کا ذکر کرتا ہے اور متعدد مقامات پر آپ کے معجزت پر کفار کے رویہ کو بیان کرتا ہے : ’’(اور اگر وہ کافر) کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو منھ پھیرلیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ہمیشہ کا جادو ہے ‘‘۔
( سورۃ القمر؍۲)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ معجزات دلیل و حجت کے طورپر ہوتے ہیں اور جن کو ایمان قبول کرنا ہوتا ہے ان کیلئے عقل و بصیرت کی دلیل ہی کافی ہوتی ہے اور جنھوں نے ہدایت قبول نہ کرنا ہو انھیں چاند کو دونیم کرکے دکھانے سے بھی ہدایت نہیں مل سکتی ۔
حجۃ الاسلام حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اس قرآنی طرز فکر کو واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے اخلاق حمیدہ ، آپؐ کی سیرت و کردار ، آپؐ کا حسن تدبیر سیاست و معاملات ، آپؐ کا مختلف المزاج لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنا ، آپؐ کے لائے ہوئے قوانین شریعت ، معارف و حقائق اور کلمات طیبات سبھی آپؐ کی نبوت و رسالت کاناقابل تردید ثبوت بہم پہنچاتے ہیں، کیوں کہ اتنے عظیم الشان اہمیت کے حامل کام کسی جعلی مدعی نبوت اورتائید الٰہی کے بغیر ہرگز انجام کو نہیں پاسکتے ۔ اس پر مستزاد یہ کہ آپ صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم ’’اُمّی ‘‘ تھے ، ظاہری طورپر کسی فرد بشر سے تعلیم حاصل نہ کی تھی ، نہ اپنے شہر میں نہ بیرونِ شہر میں یہ ظاہری اُمور آپؐ کی صداقت و حقانیت کے لئے کافی تھے لیکن بعض طبائع ظاہری اُمور کے ساتھ ساتھ باطنی اُمور میں بھی تائید الٰہی کے طلبگار ہوتے ہیں ان کے لئے کچھ باطنی تائیدات یعنی معجزات کو ظاہر کیا جاتا ہے ۔ ( احیاء العلوم ، کتاب آداب المعیشتہ و اخلاق النبوۃ )
اس تمہید کے بعد اصل موضوع کی طرف بڑھتے ہیں کہ آج ساری دنیا کا مسلمان انقلاب زمانہ کے لئے کسی کرشمہ ، کرامت اور معجزہ کا منتظر ہے ۔ اس کو اپنی حقانیت اور صداقت کا کامل یقین ہے اور وہ نصرت غیبی کا منتظر ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی غیبی مدد آئیگی اور دشمنانِ اسلام ناکام ہوں گے ، اسلام کا بول بالا ہوگا لیکن ہم کو نہ صرف قانون الٰہی کو سمجھنا ہے بلکہ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ وسلم کے طریقۂ کار پر بھی غور کرنا ہے ۔ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم کی ذات گرامی کو معجزہ بناکر مبعوث فرمایا اور کفار و مشرکین بلکہ ساری انسانیت کو بار بار غور و فکر کرنے ، تدبر سے کام لینے کی تلقین کی۔ نیز نبی اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہٖ و سلم نے پیغام حق کی تبلیغ کے لئے صرف معجزات پر اکتفاء نہیں فرمایا بلکہ عملی طورپر ، اپنے حسن تدبر ، حسن معاملہ ، حسن معاشرت ، اعلیٰ تعلیمات ، پاکیزہ قوانین ، حکمت و دوراندیشی ، صبر و استقامت ، پیہم کوشش ، مسلسل جدوجہد کے ذریعہ اسلام کے پرچم کو مضبوطی کے ساتھ مشرق و مغرب میں نصب فرمادیا ۔ اگر ہم آج جامع منصوبہ بندی ، منظم پلاننگ ، پیہم کوشش ، حکمت و عاقبت اندیشی اور ثابت و استقامت کے بغیر محض اسلام قبول کرلینے اور کلمہ طیبہ کے اقرار و تصدیق کی بناء دنیا میں غلبہ پانے کے امیدوار ہوں گے تو یہ محض امید و آرزو ہے جو حسرت بن کر ختم ہوجائیگی ۔ اسلام حق ہے اور وہ غالب ہوکر رہیگا لیکن سوال یہ ہے کہ ہم اس کے غلبہ کیلئے انفرادی طورپر کس حد تک کامیاب ہیں۔ اسلام کا غلبہ قطعی ہے لیکن اصل چیز یہ ہے کہ اسلام کے نور نے ہمارے قلب و ذہن اور فکر و نگاہ کو کس قدر منور کیا ؟ ہم کس حد تک اس کی تعلیمات کو اپنے عملی زندگی میں اپنائے ہیں۔ بحیثیت قوم آج ہم ناکام ہوچکے ، لیکن اس سے اسلام کا نقصان نہیں ہوگا لیکن بحیثیت فرد ہم اگر ناکام ہوگئے تو دین اور دنیا میں سوائے پشیمانی کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اس لئے غلبہ اسلام کے لئے امداد غیبی کی حسرت میں عمر ضائع کرنے کی بجائے حقائق کی بنیاد پر عقل و شعور کی اساس پر دنیوی قوانین فطرت کے مطابق جدوجہد کرنے اور منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے ۔