حیاء کے چار حقوق ہیں۔ ان حقوق کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے، تاکہ جوہر حیاء کے حقوق پورے پورے ادا ہوسکیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ سے ایسی حیاء کرو، جیسا کہ حیاء کا حق ہے‘‘۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: ’’یارسول اللہ! الحمد للہ ہم اللہ سے حیاء کرتے ہیں‘‘۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ نہیں‘‘ یعنی حیاء کا مفہوم صرف اتنا ہی نہیں، جو تم سمجھ رہے ہو۔ فرمایا: ’’اللہ سے حیاء کرنے کا حق یہ ہے: (۱) حیاء کا پہلا حق یہ ہے کہ سر اور اس میں جو افکار و خیالات ہیں، ان کی نگہداشت کرو، یعنی دماغ کو برے خیالات و افکار سے بچاؤ (۲) حیاء کا دوسرا حق یہ ہے کہ پیٹ اور جو کچھ اس میں ہے، اس کی نگرانی کرو، یعنی ناجائز اور حرام غذا سے پیٹ کو محفوظ رکھو (۳) حیاء کا تیسرا حق یہ ہے کہ موت اور اس کے بعد جو کچھ پیش آنے والا ہے، اسے یاد کرتے رہو (۴) حیاء کا چوتھا حق یہ ہے کہ جو شخص آخرت کو اپنی مراد بنالیتا ہے تو پھر وہ دنیا کی زیب و زینت کے چونچلے ترک کردیتا ہے اور دنیا پر آخرت کو ترجیح دینے لگتا ہے‘‘۔ یہ چار حقوق بیان فرمانے کے بعد آپﷺ نے فرمایا: ’’جس نے یہ سب کچھ کیا تو سمجھو کہ اس نے اللہ سے حیاء کرنے کا حق ادا کردیا‘‘۔ (ترمذی)
ہر مسلمان کے لئے عام طورپر اور سالک کے لئے خاص طورپر حیاء کے ان چاروں حقوق کو ادا کرنا ضروری ہے۔ ان حقوق کی ادائی کے بغیر حیاء مکمل نہیں ہوتی اور جب تک حیاء مکمل نہ ہو، ایمان بھی مکمل نہیں ہوتا۔ اسی لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حیاء ایمان ہی کی ایک شاخ ہے‘‘۔ اس بات کی مزید وضاحت اس حدیث شریف سے بھی ہوتی ہے، جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’حیاء اور ایمان ونوں ایک ساتھ رہتے ہیں، جب ان دونوں میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جاتا ہے تو دسرا بھی اٹھا لیا جاتا ہے‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ حیاء اور ایمان یا تو دونوں ہوں گے یا نہیں ہوں گے تو دونوں نہیں ہوں گے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ حیاء ہے اور ایمان نہیں، یا ایمان ہے اور حیاء نہیں، دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔
ایک بات یہ بھی سمجھ لیں کہ ’’سوال‘‘ کو حیاء کا چور سمجھا جاتا ہے، کیونکہ مانگنے سے حیاء ختم ہو جاتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مانگنے میں ذلت ہے اور یہ وقار کے خلاف ہے، اس سے عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ ’’مانگنا ذلت ہے اور مانگنے والا ذلیل ہے‘‘۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حیاء عزت اور باعث عزت ہے اور سوال ذلت اور باعث ذلت ہے، یعنی عزت اور ذلت ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے۔
حیاء کے دو محافظ ہیں، ایک قناعت اور دوسرے استغناء یعنی بے نیازی، ان دو محافظوں کے ذریعہ حیاء کی حفاظت کرنی چاہئے۔ آدمی حرص و ہوس سے دور رہے، تکاثر اور بہتات کے چکر میں نہ پڑے، کیونکہ یہ دنیا میں منہمک اور آخرت سے غافل کرنے والی چیزیں ہیں۔ بے شک احتیاجات کی تکمیل تو ضروری ہے، اس کے لئے جدوجہد کرنا روا ہے، لیکن تعیشات سے گریز کرے، اس لئے کہ تعیشات لامحدود ہیں۔ اگر آدمی تعیشات کی تکمیل میں لگ جائے تو اس کی زندگی ختم ہو جائے گی، وہ پھر بھی تعیشات کی تکمیل نہیں کرسکے گا، کیونکہ لامحدود کی تکمیل ممکن نہیں۔ لہذا عافیت کا تقاضا یہی ہے کہ تعیشات سے دور رہا جائے، اس میں عافیت بھی ہے اور عزت و وقار بھی۔ صوفیۂ کرام اور بزرگان دین کا آج ہم جو وقار، شان اور مرتبہ دیکھ رہے ہیں، وہ ان کی قناعت و بے نیازی کا ثمر ہے۔ یہ وہ نسخہ کیمیاء ہے، جو فقیر کو قارون کی طرح دولت مند بنادیتا ہے۔ اسی استغناء اور بے نیازی کی وجہ سے بزرگان دین اس شان سے رہتے تھے کہ دنیا ان کی ٹھوکروں میں رہتی تھی۔ تاریخ گواہ ہے کہ بڑے بڑے صاحبان جاہ و حشم ان کی جوتیوں میں بیٹھتے تھے۔ یہ درویشان بوریا نشین، صاحبان جلال و جبروت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتے تھے۔ یہ اتنے بے نیاز تھے کہ شاہان وقت کو اپنے پاس حاضر ہونے کی اجازت تک نہ دیتے تھے اور اگر کبھی اجازت دے بھی دیتے تو ان سے اس طرح ملتے تھے کہ شاہی رعب و جلال کو پرکاہ کے برابر بھی اہمیت نہ دیتے تھے۔ ایک بزرگ کے پاس بادشاہ حاضر خدمت ہوا تو وہ پاؤں لمبے کئے ہوئے نیم دراز حالت میں بیٹھے رہے۔ بادشاہ سامنے چاکر کی طرح کھڑا رہا، اس کو بزرگ کا اس طرح بیٹھا رہنا اور اس کو احترام نہ دینا برا لگا، لیکن وہ پی گیا۔ بات کرکے جب وہ واپس جانے لگا تو اس نے بڑے لطیف انداز میں اپنی ناگواری کا اظہار کیا اور کہا: ’’حضرت! آپ نے یہ پاؤں کب سے پھیلا دیئے؟‘‘۔ فرمایا: ’’جب سے ہاتھ کھینچ لئے‘‘۔
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس خلیفہ وقت حاضر ہوتا تو آپ اندر چلے جاتے اور جب خلیفہ آکر بیٹھ جاتا تو آپ اندر سے برآمد ہوتے، تاکہ خلیفہ کے لئے کھڑا نہ ہونا پڑے۔ علاء الدین خلجی، زندگی بھر حضرت نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگتا رہا، مگر آپ نے اجازت نہ دی۔ بالآخر تنگ آکر اس نے کہلا بھیجا کہ ’’حضرت! اب آپ اجازت دیں یا نہ دیں، میں حاضر ہو رہا ہوں‘‘۔ حضرت نے جواب میں فرمایا: ’’میرے گھر کے دو دروازے ہیں، تم ایک سے آؤگے تو میں دوسرے سے نکل جاؤں گا‘‘۔
ایک بزرگ کی خدمت میں بادشاہ حاضر ہوا تو حضرت کی رہائش گاہ سے باہر کتا بیٹھا ہوا تھا، جو ان کے گھر کی دربانی کر رہا تھا۔ ملاقات ہوئی تو بادشاہ نے کہا: ’’درویش کے دروازے پر دربان نہیں ہونا چاہئے‘‘ تو حضرت نے فرمایا: ’’ہونا چاہئے، تاکہ دنیا کا کتا نہ آئے‘‘۔ اللہ اللہ! یہ ہیں کرشمے قناعت و استغناء اور بے سوالی کے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم سوال کے بارے میں اتنے حساس تھے کہ اگر ان کے ہاتھ سے کوڑا گرجاتا تو سواری سے اترکر خود اٹھاتے تھے، کسی سے یہ نہ کہتے کہ ذرا میرا کوڑا اٹھادو۔ (اقتباس)