اللہ سبحانہ نے تجارت وکاروبار کو جائز کیا اور سود کو حرام کیا ہے (البقرۃ:۲۷۵)
اسلام کی آمدسے قبل تجارت ہی کی طرح سود،جوا وقمارجائزسمجھے جاتے تھے ، استدلال یہ تھا کہ جیسے تجارت سے نفع حاصل ہوتاہے ویسے ہی سود،جواوقمارسے بھی نفع حاصل ہوتاہے تو پھر یہ ناجائز کیوں؟ اوریہ بھی استدلا ل تھا کہ جنس کی تبدیلی کے ساتھ لین دین کامعاملہ کیا جائے جیسے گیہوں کے بدلے چاول یا اورکوئی دوسری جنس کا اناج لیا اوردیا جائے،تو تفاضل یعنی زیادتی کے ساتھ جب جائزہے تو پھر ایک ہی جنس کے تبادلے میں کمی وزیادتی کے ساتھ معاملہ کیا جائے تو کیسے ناجائزہوسکتاہے۔اللہ سبحانہ نے ان دونوں کے فرق کو واضح فرماتے ہوئے یہ آیت پاک نازل فرمائی جس سے مقصود منشناء ایزدی سے ناواقف افراد کو آگہی بخشنا تھا کہ تجارت کو اس کے فوائدکی وجہ اللہ سبحانہ نے حلال کیا اورسود کواسکے نقصانات کی وجہ حرام کیاہے،ایسا مالی فائدہ جوفریق مخالف کے استحصال کے ساتھ ہوں ظاہر ہے وہ انسانیت کے بھی مغائرہے ،جواوقمار میں چندافرادمل کرکسی شیٔ کی بازی لگاتے ہیں ایسی تمام صورتیں جس میں جیت کی شرط پرکوئی شیٔ یا رقم لگائی گئی ہوجواوقمارکہلاتاہے۔جیتنے والے کیلئے اس رقم کا لینا شرعا ناجائزوحرام ہے،چونکہ وہ اس شیٔ کا مالک نہیں اسلئے وہ کسی اورکے ہاتھ نہ اس کو فروخت کرسکتاہے اورنہ خود اپنے استعمال میں لاسکتا ہے،بہرصورت شکست خوردہ فریق کواس کا لوٹا دینا واجب ہے۔اس کی حرمت کی وجہ جواوقمار سے اجتناب ضروری ہے(الجامع لاحکام القرآن للقرطبی:۶؍۲۸۸،۲۹۱) تجارت کے ساتھ زراعت وکاشتکاری بھی جائزوحلال روزی کا ذریعہ ہے،تجارت میں انسان سرمایہ لگاتاہے اوراللہ سبحانہ کے فضل پر نظررکھتے ہوئے محنت وجدوجہدکرتاہے اوراپنی ذہنی وجسمانی صلاحتیں اوراپنی زندگی کے قیمتی اوقات اس کے لئے وقف کردیتاہے اسکے باوجودنفع کی کوئی یقینی ضمانت نہیں رہتی، فائدہ اورنقصان دونوں کے امکانات موجودہوتے ہیں اسی طرح زارع کاشتکاری کرنے والا اللہ کا نام لیکرزمین میں ہل جوتتا اورزمین کو ہموارکرتاہے پھر اس میں دانہ بوتاہے ،پانی سے کھیتی کو سیراب کرتا ہے، اناج اورغلے کے اگنے کا جو نظام اللہ سبحانہ نے بنایا ہے اسکے مطابق کھیتی تیارہوتی ہے،پتہ نہیں زارع کی یہ محنت ثمرلاتی ہے،کھیت وکھلیان بارآورہوتے ہیں یا اسکو نقصان سے دوچارہونا پڑتاہے،کچھ کہا نہیں جاسکتاامیدوبیم کی اس کیفیت کی وجہ تاجراورزارع ابتداء ہی سے اسباب کی دنیا میں محنت وجانفشانی کے ساتھ رجوع الی اللہ رہتے ہوئے دعائوں کے اہتمام میں لگے رہتے ہیں۔لیکن حرام وناجائزذرائع جیسے سود،قماروجوا میں انسان کی کوئی محنت نہیں لگتی ،سود میں سودخوارکونقصان کا کوئی خطرہ نہیں رہتا ،جوا وقمارمیں جائزراہ سے کوئی محنت صرف نہیں ہوتی بلکہ انسان امکانی نفع کے لالچ میں سرمایہ جوئے میں اس لئے مشغول کرتا ہے کہ بغیر کسی محنت اوربغیرکسی معاوضہ کے مال ہاتھ آجائے۔اسلام نے ایسے تمام ذرائع روزگارکو حرام قراردیاہے جوجائزراہ سے تجارت وزراعت وغیرہ کے بجائے کسی باطل وناجائز طریقہ سے مالی نفع کا باعث ہوں،اس وقت سماج سودکے ساتھ قماروجوئے کی لعنت میں گرفتار ہے، قماروجوئے میں سرمایہ مشغول کرنے والا اس آرزو وامید کے ساتھ شریک ہوتاہے کہ اس کو کئی گنا اضافہ کے ساتھ مالی فائدہ حاصل ہوگا۔لیکن اس میں شریک سارے افرادکو نفع حاصل نہیں ہوسکتابلکہ جیتنے والابسااوقات کثیر رقم پرقبضہ جمالیتاہے اوردوسرے سارے شریک جوآرزؤں وتمناؤں کی خیالی دنیا میں جیتے ہوئے بازی جیتنے کی طمع ولالچ میں بازی لگا بیٹھے تھے۔
وہ آن کی آن میں بادشاہ ہوں تو فقیر، مالدار ہوں تو غریب ہوجاتے ہیں،دولت وثروت کے آسمان کی بلندیوں سے فقروذلت کی عمیق کھائیوں میں گرپڑتے ہیں ،ان کے گھربارتباہ وتاراج ہوجاتے ہیں ،قماروجوئے کا کھیل کئی طرح سے کھیلا جاتا ہے :کبھی لاٹری ،کبھی نردتاش،کبھی چوسر،کبھی کرکٹ اورکبھی گھوڑوں کی ریس وغیرہ جیسے کھیلوں میں شرط لگانے والا کامیابی کی امید میں شرط لگاتاہے لیکن ناکامی جب ہا تھ آتی ہے تو اپنا سب کچھ گنوا بیٹھتا ہے، نگاہوں کے سامنے اندھیر ا چھا جاتا ہے ، تمنائوں کے خیالی قلعہ ڈھیر ہوجاتے ہیں ،دوکھیلنے والوں کے درمیان کبھی شرط لگتی ہے تو کبھی دوکھیلنے والوں پرتیسرے شرط لگاتے ہیں،یہ سب جواوقمارکی صورتیں ہیں۔ الغرض ناجائزراہ سے مال حاصل کرنے کی ہوس ،طمع اورلالچ انسان کواس طرح کی لا یعنی خرافات میں مشغول کرتی ہے ۔اسلام نے ہر ایسے ذرائع پر روک لگائی ہے جس میں ایک فریق دوسرے فریق کو کنگال کرکے مال بٹورلیتاہے،یہ ایسی لت ہے جب انسان اس میںمبتلا ہوجاتاہے توپھرچھٹکارہ مشکل ہوجاتا ہے ،جوے باز چونکہ شیطان کے چنگل میں پھنس جاتا ہے ،اس لئے کبھی کبھار کا نفع بھی دوسروں کی دنیا اجاڑنے کی بنیاد پر ہوتا ہے ، یہ آس اس کو بارباراس لت میں مبتلا ء کرتی ہے ،کئی مرتبہ ہارکربھی وہ سابق میں ایک آدھ مرتبہ کی جیت کوپیش نظررکھتے ہوئے ہر مرتبہ جیت کی آس میں مسلسل ہارتاہے ۔کبھی کبھارجیتنے اوراکثربازی ہارنے کے باوجودمایوس نہیں ہوتا اس طرح وہ امید وبیم کے دلدل میں پھنستے پھنستے آخرکارزندگی کا ساراسازوسامان ،مالی سرمایہ ،جائیدادوغیرہ سب کچھ خیالی نفع کی امید میں ہاربیٹھتا ہے،بعض ہارنے والے سب کچھ ہارکربالآخربیوی کو بھی داؤپر لگادیتے ہیں،گیٹ نیوزممبئی کے مطابق کانپور کا ایک جواری آئی پی ایل پرجواکھیلنے کے دوران اپنی بیوی کو ہاربیٹھا،ہمارے بھارت میں یہ کوئی نادرواقعہ نہیں چنانچہ ایکسپریس نیوزکے نمائندہ کے مطابق چنیوٹ کے علاقہ سٹیلائٹ ٹاون میں ایک شخص پندرہ ہزارروپیئے جوئے میں ہارگیا ،رقم ختم ہوجانے کے بعد اس نے اپنی بیوی کوبھی آخری بازی کے طورپرداؤپر لگادیا۔اللہ سبحانہ نے ’’میسر‘‘جوئے کو حرام قراردیا ہے،دورجاہلیت میں قمارو جوئے کا بڑا رواج تھا،جوئے بازی میں چندتیرنشان زدہ اورچندتیربے نشان رکھے جاتے ،دھوکہ دہی سے اکثر بے نشان تیرنکلنے کی تدبیر کی جاتی جب بے نشان تیر برآمدہوتے توجوئے میں بازی لگانے والا ہارجاتا ۔موجودہ دورمیں جوئے بازی کے جو اڈے ہیں وہ بھی دھوکہ دہی کے مراکزہیں، جوئے میں دھوکہ دہی نہ ہوتب بھی وہ شرعاً حرام ہے،اسکی حرمت دھوکہ دہی کی بنیادپر نہیں ہے بلکہ یہ حرمت باطل طریقہ سے دوسرے فریق کا استحصال کرتے ہوئے کسی شیٔ کو معاوضہ کے بغیرحاصل کرنے کی بنیادپر ہے۔ اللہ سبحانہ نے شراب،جوا،بت اورفال نکالنے کے پانسے کے تیر، ان سب کوشیطان کے گندے کام قراردیکران سے بچے رہنے کی تاکیدفرمائی ہے۔ اور فرمایا کہ : فلاح وکامرانی اسی میں ہے ،شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور جوے کے ذریعہ تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈالدے اور اللہ سبحانہ کی یاد اور نماز سے تم کو باز رکھے ،کیا تم اب بھی اس سے باز نہیں آئو گے ؟۔(المائدہ۔۹۱۔۹۰) اس آیت پاک میں جن چیزوں کوشیطانی گندے کام سے تعبیر کیا گیا ہے ان میں ’’الازلام ‘‘بھی ہے ،اس لفظ میں وہ سارے جوئے اورسٹے کے معاملات شامل ہیں جوعام طورپردنیا میں اس وقت رائج ہیں یا آئندہ نت نئے طریقہ سے رواج پاسکتے ہیں۔شراب اور جوے کے معاشی ومعاشرتی اور دینی نقصانات سر کی آنکھوں سے دیکھے جاسکتے ہیں،شراب اور جوا ایسی لت ہے جو انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی ۔ اعاذنا اللہ منہما ۔ یہ آیات پاک جب نازل ہوئیں ایمان والے سرجھکا کر تعمیل حکم میں ’’انتھینا ربنا‘‘ کہہ اٹھے۔لیکن دور جاہلیت کے انسان دشمن،وحی الہی کی رحمت سے محروم اس لعنت میں گرفتار رہے اور یہ دور ۔ دور جاہلیت ِجدیدہ ہے اور اس کے دانشور آج بھی انہیں کے پیروکار ہیںاور انسانی سماج کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ جواوقمارکھیلنے والوں کے درمیان محبت ومروت باقی نہیں رہتی بلکہ بغض وعداوت جڑپکڑ لیتی ہے۔ (التفسیرالمنیر۴/۴۰) جس کی وجہ نقصان اٹھانے والا انتقام کی آگ میں جلتے رہتا ہے، اور جوئے میں جیتنے والے کونقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا،یہی وجہ ہے کہ جوا اورسٹہ کھیلنے والوں کے درمیان اکثرقتل وخون کے واقعات دیکھے جاتے ہیں۔چونکہ یہ شیطانی نجس کام ہے ، شیطان اس حرام کام میں مبتلاء کرکے جوا کھیلنے والوں کے درمیان جھگڑے فسادپیداکرتاہے، جوئے بازی میں جان ومال کے ساتھ عزت وآبروکا بھی نقصان ہے۔اسکے علاوہ جوے اورسٹے کے مراکز چلانے والے اوراس کھیل میں حصہ لینے والے عیار،مکار،دھوکہ باز،اورفریبی بن جاتے ہیں۔یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ جوئے بازوں کوسلام کرنے سے حضورانور ﷺ نے منع فرمایاہے،اورارشادفرمایاکہ ’’جوا کھیلنے والے جب ایک جگہ جمع ہوتے ہیں تو شیطان اپنے پورے لاؤ لشکرکے ساتھ ان میں گھس جاتا ہے اوران کو مزیدشرکے راستہ پر لیجاتاہے‘‘۔ آپ ﷺ کا یہ بھی ارشادہے کہ ’’اللہ سبحانہ اپنی مخلوق پر۳۶۰؍مرتبہ نظررحمت فرماتاہے لیکن شطرنج کھیلنے والوں کیلئے اس رحمت والی نظرمیں کوئی حصہ نہیں۔ایک اورروایت میں ہے کہ شطرنج کھیلنے والا بڑاگنہگارہے،سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کا ایک ایسی قوم پرگزرہوا جو شطرنج کھیل رہی تھی یہ دیکھ کر آپ نے فرمایا یہ کیا مورتیاں ہیں جن پر تم جمے بیٹھے ہو۔اس سے بہترتھا کہ تم آگ کے انگاروں کوپکڑلیتے،اللہ سبحانہ کی قسم تم تو عبادت کیلئے پیداکئے گئے تھے لیکن یہ تم فضول کام میں مشغول ہو،پھرفرمایا شطرنج کھیلنے والا بڑا کذاب (جھوٹا)ہے۔ سیدنا محمدرسول اللہ ﷺنے شراب ، جوا،نردکھیلنے اورغبیراہ یعنی خریدوفروخت میں دھوکہ سے منع فرمایا،،نہی عن الخمروالمیسروالکوبۃ والغبیراء (سنن ابی دائود، رقم الحدیث۳۶۸۵)۔
سماج کی تطہیر دلوںمیں الفت ومحبت کے قیام اور معاشرہ کو مصائب وآلام کے گھیرے میں لینے والے اعمال قبیحہ واشغال شنیعہ سے نجات دلانے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے اسلام ۔