اُمور مقننہ کے قلمدان کی سیما آندھرا وزیر کو منتقلی پر تلنگانہ کے سری دھر بابو ناراض، استعفی کی دھمکی
’’ قلمدان کی تبدیلی میرا اختیارِ تمیزی ہے‘‘: کرن کمار ریڈی
’’ چیف منسٹر کا فیصلہ غیر جمہوری‘‘: جانا ریڈی
دونوں علاقوں کے وزراء کی گورنر سے ملاقات
حیدرآباد۔ یکم جنوری، ( پی ٹی آئی) آندھرا پردیش میں حکمراں کانگریس کے لئے نیا سال ایک نئی پریشانی کے ساتھ شروع ہوا ہے۔ تلنگانہ کے ایک وزیر کے قلمدان میں تبدیلی کے بعد اس علاقہ سے تعلق رکھنے والے ان کے کابینی رفقاء کا شدید احتجاج شروع ہوگیا ہے۔ چیف منسٹر این کرن کمار ریڈی کی طرف سے کل رات کئے گئے فیصلہ کو تلنگانہ وزراء نے سازش قرار دیا ہے جبکہ چیف منسٹر نے جوابی وار کرتے ہوئے کہا کہ وزراء کے قلمدانوں کی تبدیلی مکمل طور پر ان کا اختیارِ تمیزی ہے۔ ایک ایسے وقت جب کانگریس تلنگانہ اور سیما آندھرا کے خطوط پر عملاً منقسم ہوگئی ہے ، وزیر سیول سپلائیز ڈی سریدھر بابو کو اُمور مقننہ کے زائد قلمدان سے محروم کردیا گیا اور اس کے بجائے کمرشیل ٹیکس کا قلمدان دیا گیا ہے۔
اُمور مقننہ کا قلمدان فی الحال غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوگیا ہے۔ ان حالات میں ایس شیلجا ناتھ کو ان کے موجودہ اسکولی تعلیم کے قلمدان کے علاوہ اُمور مقننہ کا قلمدان دیا گیا ہے۔ سریدھر بابو کا تعلق تلنگانہ اور شیلجا ناتھ کا تعلق سیما آندھرا سے ہے۔ یہ بھی بڑی عجیب بات ہے کہ سریدھر بابو جو کبھی چیف مسٹر کرن کمار ریڈی کے ایک انتہائی قریبی اور بااعتماد رفیق کار رہے ہیں، 2004ء اور 2009ء کے دوران جب وائی ایس راج شیکھر ریڈی چیف منسٹر تھے یہ دونوں گورنمنٹ وہپ اور چیف ہپ کی حیثیت سے ایک دوسرے کے ساتھ کام کرچکے ہیں لیکن تلنگانہ کی تائید و مخالفت پر ان دونوں میں اختلافات پیدا ہوگئے ہیں۔
چیف منسٹر نے آج اپنے کیمپ آفس پر اخباری نمائندوں سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’’ وزیر کے قلمدان میں تبدیلی خالصتاً انتظامی وجہ کے مطابق کی گئی ہے اور یہ میرا اختیارِ تمیزی بھی ہے۔ کمرشیل ٹیکس سے موصول ہونے والی آمدنی میں زبردست کمی ہوئی ہے اور وزیر موصوف کو کلیدی محکمہ کی زائد ذمہ داری دی گئی ہے۔‘‘ یہاں یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ کمرشیل ٹیکس کا قلمدان گذشتہ تین سال سے چیف منسٹر کے پاس تھا۔ ابتدائی سال کے دوران ریاستی حکومت کی آمدنی میں کمرشیل ٹیکس کا حصہ 26فیصد رہا لیکن گذشتہ سال اس کی آمدنی میں 15فیصد اور رواں سال 9.5فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ قلمدان کی تبدیلی پر برہم سریدھر بابو ’’ تلنگانہ عوم کی توہین ‘‘ پر بطور احتجاج کابینہ سے استعفی کی پیشکش کی ہے۔ لیکن ان کے رفقاء نے جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
تلنگانہ سے تعلق رکھنے والے وزیر سے اُمور مقننہ کا زائد قلمدان واپس لئے جانے پر پیدا شدہ برہمی کا اظہار کرنے کیلئے وزیر پنچایت راج کے جانا ریڈی نے اس علاقہ کے دیگر چار وزراء کے ساتھ آج گورنر ای ایس ایل نرسمہن سے ملاقات کی۔ اس موقع پر شدید احتجاج کرتے ہوئے چیف منسٹر کو اپنی سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ وہ ( چیف منسٹر ) دوسروں کو ’’ تکلیف دہ خوشی‘‘ حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ باور کیا جاتا ہے کہ ایک ایسے وقت جب صدر جمہوریہ کی طرف سے روانہ کردہ آندھرا پردیش تنظیم بل 2013 کے مسودہ پر ریاستی مقننہ میں 3جنوری سے کلیدی بحث شروع ہورہی ہے اس نازک مرحلہ پر علاقائی توازن میں ترمیم کیلئے قلمدان میں تبدیلی کی گئی ہے۔
واضح رہے کہ ریاست کی تقسیم کے مسئلہ پر عملاً منقسم ایوان میں اس بل پر پرسکون انداز میں بحث کو یقینی بنانے کیلئے سریدھر بابو نے کلیدی رول ادا کیا تھا۔ قلمدان کی تبدیلی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’کمرشیل ٹیکس کا قلمدان قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ماہ ایوان میں اس بل کی پیشکشی کے موقع پر وہ ذمہ دارانہ انداز میں کام کرچکے ہیں اور بحیثیت وزیر اُمور مقننہ ہمیشہ قواعد و ضوابط کی پابندی کی ہے۔‘‘ گورنر سے ملاقات کے بعد جانا ریڈی کی رہائش گاہ پر چاروں تلنگانہ وزراء کا اجلاس منعقد ہوا جس میں سریدھر بابو نے استعفی کی پیشکش کی لیکن رفقاء نے انہیں جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے روک دیا۔ بعد ازاں جانا ریڈی نے اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے چیف منسٹر کے فیصلہ کو غیر جمہوری اور دستور کی روح کے مغائر قرار دیا۔ لیکن یہ کہنے سے پس و پیش کیا کہ وہ ان ( چیف منسٹر ) کے اختیارِ تمیزی پر سوال نہیں اُٹھارہے ہیں۔ وزیر فینانس انم رام نارائن ریڈی ( سیما آندھرا ) نے گورنر سے علحدہ ملاقات کی اور کہا کہ قلمدانوں میں تبدیلی کرنا چیف منسٹر کا اختیارِ تمیزی ہے۔