قلعہ گولکنڈہ میں نئے بورڈس نصب ، اردو نظر انداز

اردو کے شہر میں اردو کے ساتھ امتیازی سلوک
حیدرآباد ۔ 5 ۔ مئی : اردو زبان پر عمل آوری اور اس کی ترقی کے تعلق سے حکومت کے وعدے ، اعلانات اور ہدایات اہل زبان کو خوش کرنے کی ایک ناکام کوشش ثابت ہورہی ہے کیوں کہ حکومت کے ان اعلانات اور ہدایات کے باوجود سرکاری عہدیداروں کی اردو سے کھلی دشمنی وقفہ وقفہ سے ظاہر ہورہی ہے ۔ حکومت اعلانات اور ہدایات کو جاری کرتی ہے لیکن سرکاری عہدیداروں نے اردو دشمنی کو اپنا وطیرہ بنالیا ہے ۔ اردو کے شہر میں اردو کو مٹانے کی مذموم سازش کے آئے دن ثبوت ملتے ہیں ۔ سرکاری دوسری زبان اردو کو پولیس اسٹیشنوں ، دواخانوں ، بسوں اور بس اسٹاپس ، ریلوے اسٹیشن اور دیگر اہم عوامی مقامات پر سے پہلے ہی ختم کردیا گیا ۔ اردو ادب و زبان کا گہوارہ اور پہلے صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ کا تعلق شہر حیدرآباد سے ہے اور اب شہر حیدرآباد سے ہی اردو کو ختم کرنے کی کوشش اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے کیوں کہ قلعہ گولکنڈہ کے باب الداخلہ سے 400 فیٹ بلندی پر موجود بالاحصار تک عوام کی رہنمائی اور ہر مقام کی تفصیلات پر مشتمل بورڈ پر اردو کو نظر انداز کردیا گیا ہے ۔ مرکزی حکومت کے زیر انتظامیہ گولکنڈہ قلعہ میں باب الداخلہ سے لے کر بالا حصار تک ہر مقام اورمیدان کی تفصیلات فراہم کرنے اور عوام کو معلومات دینے کے لیے شاندار گرانائیٹ کے پتھروں پر مقامات کی تفصیلات تلگو ، ہندی اور انگریزی میں موجود ہیں لیکن ان پتھروں کے سائن بورڈس پر اردو کو یکسر غائب کردیا گیا ہے ۔ حد تو یہاں تک ہوچکی ہے کہ قلعہ گولکنڈہ میں جو 5 مساجد ہیں ان کے نام بھی صرف تلگو ، ہندی اور انگریزی میں رومن طریقہ سے درج ہیں ۔ ابراہیم مسجد ، تارہ متی مسجد ، بہمنی مسجد، موتی مسجد اور زنانی مسجد کے علاوہ دربار ہال ، نگینہ باغ اور دیگر اردو الفاظ پر مسجد کے ناموں کو بھی تلگو کے لب و لہجہ اور تلفظ میں تبدیل کردیا گیا ہے جب کہ ابراہیم مسجد کو ’ ماسق آف ابراہیم ‘ لکھ دیاگیا ہے ۔ جب محکمہ آثار قدیمہ کی غفلت اور نئے بورڈس پر تلگو ، ہندی اور انگریزی تحریر ہونے اور اردو کو زبانوں سے متعلق یہاں کے ذمہ دار اور اعلی عہدیدار سے استفسار کیا گیا تو پہلے تو اس عہدیدار نے کسی بھی سوال کا اطمینان بخش جواب نہیں دیا ۔ پھر دوسرا اس کی تمام گفتگو صرف تلگو زبان میں ہی تھی ۔ حالانکہ بار بار اس عہدیدار کو اردو کی طرف راغب کرنے کے لیے اردو میں سوال کئے گئے لیکن وہ صرف تلگو میں ہی جواب دے رہا تھا ۔ یاد رہے کہ ایک وہ زمانہ بھی تھا جب اردو صرف مسلمانوں کی یا مساجد و درگاہوں کے ہمراہ صرف خانقاہوں کی زبان نہیں تھی بلکہ کبھی مندر میں بھی اردو ہوا کرتی تھی ۔ پرانے پل کے شمشان گھاٹ کی قدیم تختی اور دھول پیٹ کی ایک مندر میں بھی اردو کی تختی آج بھی موجود ہے ۔ اردو کو مٹانے کی سازش میں جہاں غیر اپنا متعصبانہ رویہ اختیار کررہے ہیں تو اس میں ہم اردو والوں کا بھی رول مجرمانہ غفلت کا ترجمان ہے کیوں کہ اردو کو ختم کرنے والی سازشوں کو کھلی آنکھ سے دیکھنے کے بعد بھی ہم اپنے طور پر کوئی عملی اقدام نہیں کرتے اور نہ ہی قانونی راہ اختیار کرتے ہوئے اپنے ورثہ اور اسلاف کی خدمات کے بیش بہا نمونے کو مٹانے کی کوششوں کو ناکام بناتے ہیں ۔ اردو داں طبقہ کا یہ آج اولین فرض ہے کہ وہ نئی نسل کو کم از کم گھریلو سطح پر اردو زبان پڑھنا اور لکھنا سیکھائیں بلکہ حکومتی اور دفتری سطح پر جہاں اردو سے نا انصافی کی جارہی ہے اس کے خلاف موثر اور قانونی راستہ اختیار کریں تاکہ پھر کسی شعبہ یا عہدیدار کی ہمت نہ ہو کہ وہ اردو کو مٹانے کے متعلق سوچ بھی سکے۔۔