عالم عرب میں بڑھتی ناراضگیوں کو اس خطہ کے لیے نا مناسب سمجھا جارہا ہے ۔ قطر کے موقف کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس نے ناراض ملکوں کے بارے میں اپنا ذہن بنا چکا ہے کیوں کہ قطر سے ناراض چار عرب ملکوں نے اسے 13 مطالبات پیش کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ اس پر عائد پابندیوں کو ہٹانے کے لیے اپنے فیصلہ سے واقف کروائے ۔ سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات ، بحرین اور مصر نے اسے مہلت دی تھی جو منگل کے دن ختم ہوگئی ۔ اب اس مہلت کے ختم ہونے کے بعد یہ چار خلیجی عرب ممالک قطر کے بارے میں کیا قدم اٹھائیں گے یہ غور طلب ہے ۔ ان عرب ممالک نے قطر پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ گذشتہ 20 سال سے اخوان المسلمین ، القاعدہ اور دولت اسلامیہ جیسے گروپس کی تائید کرکے اس خطے کو غیر مستحکم کررہا ہے ۔ انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی پشت پناہی کی کوئی بھی ملک حمایت نہیں کرتا مگر قطر کے بارے میں جس طرح کی رائے قائم کی گئی ہے یہ تشویشناک بات ہے ۔ قطر کو اپنی خارجہ پالیسی اور داخلی امور دونوں جانب توجہ دینی ہے ۔ اب اسے دی گئی مہلت ختم ہوئی ہے تو عرب ممالک کی تنظیموں میں وہ کب تک برقرار رہے گا یہ اس سے ناراض ملکوں کے فیصلہ پر منحصر ہے ۔ اگر قطر کو عرب تنظیموں کی رکنیت سے خارج کردیا گیا تو اس پر عائد معاشی پابندیاں اور سیاسی شرائط مستقل طور پر نافذ ہوجائیں گے ۔ قطر کے تمام ہمسایہ ممالک کو اس ملک کا بائیکاٹ کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں ہوگا ۔ اس سے پہلے کہ خطہ میں حالات ابتر ہوجائیں عالم عرب کے دیگر ملکوں کو ثالثی اور مصالحانہ کوششوں میں شدت پیدا کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ قطر کو جن 13 مطالبات دئیے گئے ہیں ان میں ٹی وی چیانل الجزیرہ پر پابندی کا مطالبہ بھی شامل ہے ۔ قطر کو اپنے ہمسایہ ملکوں کے مطالبات کا احترام کرنے میں تامل ہورہا ہے تو پھر ناراضگیوں کا پہاڑ مزید بلند ہوگا ۔ قطر کو اس صورتحال سے باہر نکلنے یا نکالنے کے لیے امریکہ ، ترکی یا دیگر ممالک نے اپنے حصہ کے طور پر کوششیں ضرور کی ہیں لیکن بحران کو حل کرنے کے لیے انہوں نے بھی کوئی فارمولہ پیش نہیں کیا ۔ عالم عرب کو کسی بھیانک یا خطرناک و پیچیدہ مسئلہ سے دوچار کرنے کے بجائے اس بحران کے بنیادی وجوہات کو نوٹ کر کے انہیں حل کرنے پر توجہ دی جائے ۔ عالم عرب کے چار ممالک سعودی عرب ، یو اے ای ، مصر اور بحرین کو بھی اپنی شکایت اور اندیشوں کو کم کرنا پڑے تو اس میں فراخدلی سے کام لینے کی ضرورت ہوگی ۔ قطر پر الزام ہے کہ وہ اپنی حرکتوں کے ذریعہ اس خطہ کے دوسرے ممالک کو نقصان پہونچانے میں مصروف ہے ۔ ہر ملک کو اپنی سلامتی اور بقا کی فکر رہتی ہے ۔ اگر قطر کسی ملک کی سلامتی اور بقا کے لیے خطرہ بن رہا ہے تو اس خطرہ کو زائل کرنے کے طریقوں پر غور کیا جاسکتا ہے تاکہ قطر کا بائیکاٹ کر کے اس پر عائد پابندیاں ختم کی جائیں ۔ اب سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ آخر یہ چار عرب ممالک اپنے 13 مطالبات پر ہی بضد کیوں ہیں ۔ جن ملکوں نے قطر سے خائف ہو کر اپنی دفاعی پالیسیوں پر نظر ثانی کی ہے اس کے لیے ان ملکوں نے مغربی ملکوں سے جدید ہتھیاروں کی خریدی کے لیے اربوں ڈالر کے معاملت کیے ہیں ۔ جس کا مطلب یہی ہوا کہ عالم عرب کی دولت مغربی دنیا کے پاس جمع ہورہی ہے ۔ عربوں کو آپس میں لڑا کر یہ عالمی طاقتیں خاص کر مغربی ممالک اپنے دفاعی معاملے پورے کررہے ہیں ۔ ہتھیاروں کی خریدی پر بے تحاشہ روپیہ خرچ کرنے سے سوائے تباہی کے کچھ نہیں حاصل ہوگا ۔ قطر نے بھی امریکہ سے 12 ارب ڈالر مالیت کے ایف 15 طیاروں کی خریدی کا منصوبہ بنایا تھا لیکن امریکی سینٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی نے اس معاہدہ کو روک دیا ہے کیوں کہ قطر کے مقابل امریکہ کو دوسرے عرب ملکوں کی دوستی اہمیت کی حامل ہے ۔ امریکہ اور کویت نے عرب ممالک کے درمیان ثالثی کی کوشش ضرور کی تھی مگر اس میں تاحال کوئی تبدیلی نہیں آئی ۔ تمام عرب فریقین کے درمیان پیدا شدہ تنازعہ اور بحران حل کرلیا جاتا ہے تو خطہ کو ایک بے اعتمادی کی فضا سے بھی آزاد کرانے کی کوشش کی جانی چاہئے ۔ قطر کے معاملہ میں عالم عرب میں جو داغ لگ چکا ہے اسے مٹانے میں کامیابی بھی ملتی ہے تو تلخیوں کو دور کرنے میں کامیاب ہونے کی امید موہوم معلوم ہوگی ۔