حیدرآباد ۔ 10 ۔ جنوری : ( نمائندہ خصوصی ) : ہمارے شہر میں ایسی کئی قطب شاہی مساجد ہیں جو غیر آباد ہیں اور کچھ آباد بھی ہیں تو بعض غیر سماجی عناصر وہاں مسلمانوں کو نمازوں کی ادائیگی سے روکنے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں اور ان کی اس ناپاک کوششوں میں انہیں بلدیہ اور پولیس کا بھر پور تعاون حاصل ہوتا ہے جب کہ موقوفہ جائیدادوں و اراضیات پر ناجائز قبضوں اور ان پر غیر مجاز مذہبی ڈھانچوں کی تعمیر کے موقع پر بلدیہ کو اعتراض ہوتا ہے اور نہ ہی پولیس کسی قسم کی مداخلت کرتی ہے ۔ ایسا ہی کچھ عطا پور میں واقع انتہائی قدیم قطب شاہی مسجد کے ساتھ ہورہا ہے ۔ اس مسجد کو چھوٹی مسجد بھی کہا جاتا ہے ۔ سقوط حیدرآباد ( پولیس ایکشن ) کے بعد سے ہی اس مسجد کا نام و نشان مٹانے کی کوششیں کی گئیں اور امن کے دشمنوں کو ان کی ناپاک کوششوں میں سرکاری عہدیداروں کی ناجائز تائید و حمایت اور بالواسطہ مدد کے نتیجہ میں کامیابیاں بھی ملیں ۔
اس مسجد کو ایک منصوبہ بند سازش کے تحت آہستہ آہستہ شہید کیا جاتا رہا ہے اور صرف محراب سے ہی اس کی شناخت باقی رہ گئی تھی جب کہ اس مسجد کے تحت جو چار ایکڑ موقوفہ اراضی تھی اس قیمتی اراضی پر غیر مسلموں نے اپنی بستیاں بسا لیں ۔ عمارتیں تعمیر کرلی گئیں ۔ مندر بنادئیے گئے اور جب مقامی غیور مسلمان حرکت میں آئے اور مسجد آباد کرنے کی کوشش کی تو مجلس بلدیہ عظیم ترحیدرآباد اور پولیس راجندر نگر کی مدد سے اس میں رکاوٹیں پیدا کی گئیں ۔ آج نماز جمعہ سے کچھ گھنٹے قبل وہاں تعمیر کردہ وضو خانہ کو منہدم کردیا ہے ۔ مسجد کی انتظامی کمیٹی کا کہنا ہے کہ سابق سرپنچ کانتا ریڈی نے پولیس کی نگرانی میں مسجد کے وضو خانہ کو منہدم کروایا ۔ جب کہ پولیس اور بلدی عہدیدار اس کے ہاتھوں کھلونا بنے ہوئے ہیں ۔ عین جمعہ کے موقع پر اس امن دشمن حرکت کے باوجود مقامی مسلمانوں نے غیر معمولی صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور پولیس کو بھی اس کا احساس ہے ۔ واضح رہے کہ چار سال قبل اس مسجد کو آباد کیا گیا لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حیدراباد جیسے شہر کی بلدیہ نے مسجد کی تعمیر کی اجازت دینے سے انکار کیا اور اس کے انکار کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ بلدی عہدیداروں کے انکار کے نتیجہ میں مسلمان ٹاٹ پٹریوں کی دیواروں اور چھت ڈالے وہاں نمازیں ادا کررہے ہیں اور جمعہ کی نماز میں دیڑھ سو تا دو سو فرزندان اسلام وہاں نماز ادا کرتے ہیں ۔ بارش میں سخت مشکلات کے باوجود مقامی مسلمان جوق در جوق اس مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے پہنچ جاتے ہیں ۔ اسی طرح شدید دھوپ بھی ان فرزندان اسلام کو مسجد قطب شاہی میں نماز ادا کرنے سے نہیں روک سکتی ۔ شدید سردی کی بھی پرواہ کئے بناء وہ اس قدیم مسجد میں سربسجود ہوتے ہیں ۔ کبھی چھوٹی مسجد کے تحت چار ایکڑ اراضی ہوا کرتی تھی لیکن اس پر ناجائز قبضوں کے نتیجہ میں وہ سمٹ کر 200 گز ہوگئی ہے جب کہ ناجائز قبضوں میں جہاں غیر سماجی عناصر نے اہم رول ادا کیا وہیں مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد نے بھی کوئی کسر باقی نہیں رکھی ۔ اس نے وہاں مسجد کی موقوفہ اراضی پر ایک پارک تعمیر کروادیا ۔ اور مسلمانوں کو اراضی حاصل کرنے سے روکنے کے لیے اس پارک میں جھونپڑیاں ڈالدیں ۔ جس کا مقصد مسجد کی اراضی کو ہڑپ لینا ہے ۔
اس مسجد کا کوئی دورہ کرلے تو اسے اندازہ ہوگا کہ وہاں صرف اندھا قانون چل رہا ہے ۔ قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہے اور سرکاری محکمہ بالخصوص بلدیہ اور پولیس لینڈ گرابرس کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں ۔ مقامی لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس اور بلدی عہدیدار کانتا ریڈی کے سامنے بے بس ہوگئے ہیں ۔ آج جب مسجد کا وضو خانہ توڑا گیا اس وقت حالات کشیدہ ہوسکتے تھے لیکن مسلمانوں نے انتہائی صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جو مقامی غیر مسلم آبادی پچھلے چار برسوں سے دیکھ رہی ہے کہ لاکھ رکاوٹوں اور شرپسندی کے باوجود مسلمان انتہائی پرامن طریقہ سے نمازیں ادا کررہے ہیں ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد نے ذمہ دار عہدیداروں نے مسجد کی اراضی پر مندر تعمیر کرنے کی اجازت دے دی ۔ اب وقف گزٹ میں اس مسجد کے تحت صرف 8 گھنٹے اراضی ظاہر کی گئی اس بارے میں ریاستی وقف بورڈ کو فوری حرکت میں آنا ہوگا جب کہ بلدیہ اور پولیس کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے نقص امن کے خواہاں عناصر کی سرکوبی کرنی ہوگی ۔ مقامی مسلمانوں اور مسجد کمیٹی نے ہمیشہ مسجد کی تعمیر کے لیے قانون کا سہارا لیا ۔ اس سلسلہ میں چھوٹی مسجد قطب شاہی کی انتظامی کمیٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے جناب محمد ابراہیم ساکن عطا پور راجندر نگر منڈل ، جناب محمد نصیر الدین ساکن عطا پور اور ایک طالب علم سید افسر ساکن عطا پور نے قانون کا دروازہ کٹکھٹاتے ہوئے 2011 میں ایک رٹ پٹشن داخل کی ، جس میں کمشنر جی ایچ ایم سی حیدرآباد ڈپٹی کمشنر سرکل نمبر 6 جی ایچ ایم سی راجندر نگر ، کمشنر پولیس سائبر آباد ڈپٹی کمشنر پولیس راجندر نگر ، انسپکٹر راجندر نگر پولیس کے کانتا ریڈی ولد اگی ریڈی ساکن کے کے آر اپارٹمنٹ عطا پور راجندر نگر چیف اکزیکٹیو آفیسر ریاستی وقف برڈ کو فریق بنانا تھا لیکن مسجد کی تعمیر کی اجازت دینے کا وعدہ کرتے ہوئے اسے اس رٹ درخواست سے دستبرداری کے لیے مجبور کیا گیا تاہم اب بھی بلدیہ مسجد کی تعمیر کی اجازت دینے سے انکار کررہی ہے ۔ سائبر آباد پولیس کمشنر اس کیس کو سنجیدگی سے لیں ۔۔