حیدرآباد ۔ 25 ۔ مارچ : ( نمائندہ خصوصی ) : حیدرآباد ایک تاریخی شہر نہیں بلکہ یہ ہمارے آباء و اجداد کے انمٹ نقوش کا گہوارہ ہے تاہم گذرتے زمانے کے ساتھ وقت کی ستم ظریفی نے ہمارے اسلاف کے شاندار کارناموں پر ایسی گرد جمع کردی ہے جس کی وجہ سے ہم خود ہمارے اسلاف کے کارناموں سے ناواقف ہوتے جارہے ہیں لیکن روزنامہ سیاست نے تاریخی یادگاروں اور ان میں خصوصا مساجد کو آباد کرنے میں پیش پیش رہا ہے اور اسی کی ایک کڑی ایک قدیم مسجد جیسے مقامی سطح پر قطب شاہی مسجد کہا جاتا ہے جو کہ مکہ مسجد کی ہوبہو نقل ہے تاہم اس مسجد کی تعمیر مکمل ہونے کے باوجود اس پر مینار نہیں ہے جس کی وجہ مسجد کی تعمیر تک قطب شاہی حکومت کا خاتمہ ہے ۔ مسجد قطب شاہی کو محکمہ آثار قدیمہ کی جانب سے نظر انداز کرنے کے متعلق روزنامہ سیاست نے مسلسل خصوصی رپورٹس شائع کی ہیں جس کی پہلی خبر 22 اکٹوبر 2009 میں شائع ہوئی تھی ۔ اس رپورٹ کی اشاعت کے بعد مقامی افراد نے اس مسجد کی صاف صفائی کا کام کیا لیکن چونکہ یہ مسجد سطح زمین سے 100 فٹ کی اونچائی پر ہے لہذا اس مسجد تک رسائی کے لیے سیڑھیوں کا مسئلہ تھا اور لاکھوں روپیوں کے اخراجات برداشت کرتے ہوئے اس کے لیے سیڑھیاں تیار کی گئیں ۔ روزنامہ سیاست کی مسلسل کوششوں کے بعد اس 5 کمان والی مسجد کی دیکھ بھال کے لیے آہنی جالیاں نصب کردی گئیں ۔ ویرانی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں یہاں خرمستیاں کرتے تھے لیکن مقامی افراد کی توجہ نے اللہ کے گھر کی حرمت اور تقدس کو پامال ہونے سے محفوظ کرلیا ہے ۔ مسجد قطب شاہی کو آباد کرنے کی کوششوں نے رنگ دکھایا اور محکمہ آثار قدیمہ نے ایک بڑے بجٹ کے ساتھ اس مسجد کی چھت کی تزئین نو کا کام مکمل کرنے کے علاوہ مسجد کے اطراف موجود تاریخی کمانوں کی عظمت رفتہ بھی بحال کردی ہے ۔ اس قطب شاہی مسجد میں نماز جمعہ بھی ادا کی جارہی ہے ۔ اس طرح اس مسجد کے آباد کرنے میں جہاں روزنامہ سیاست نے مسلسل رپورٹس کے ذریعہ اپنا فریضہ ادا کیا تو مقامی افراد نے اس کارخیر میں اپنا ہاتھ بٹاتے ہوئے رضا ئے الہیٰ کا سامان کرلیا ہے ۔۔