== 2002 ء گجرات مسلم کش فسادات ==
کنور۔ 5 مارچ ۔ (سیاست ڈاٹ کام )گجرات میں 2002 ء کے مسلم کش فسادات کے دوران ایک مسلمان قطب الدین انصاری کا ہاتھ جوڑکر فرقہ پرستوں سے رحم طلب کرتے ہوئے تصویر نے الیکٹرانک میڈیا میں ایک علامتی درجہ حاصل کرلیا تھاجبکہ ایک ہندو فرقہ پرست اشوک موچی کو بھی تلوار لہراتے ہوئے دکھایا گیا تھا لیکن آج اتنے سال گزرجانے کے بعد کیرالا کے تھلا سیری میں یہ دونوں متضاد شخصیات نہ صرف ایک کمرے میں رہائش پذیر تھے بلکہ ایک ہی خواب کو شرمندہ تعبیر ہوتے بھی دیکھنا چاہتے تھے ۔ 12 سال بعد جب قطب الدین انصاری نے بحرنگ دل کے سابق ورکر اشوک موچی سے ملاقات کی تو دونوں نے ہی ایک دوسرے سے مصافحہ کیا اور عزم کیا کہ وہ اپنی پرانی مخاصمت کو ختم کردیں گے ۔ اسٹیج پر دونوں ہی موجود تھے اور ایک دوسرے سے خوشگوار موڈ میں بات کرتے بھی نظر آئے ۔ دونوں ہی اب اپنی عمر کی چالیسویں دہائی میں ہیں۔ انھوں نے عوام کے سامنے ٹھہرکر گجرات فسادات کے دوران اپنے اپنے تجربات کا اظہار کیا کہ کس طرح ڈر ، خوف ، نفرت ، تشدد اور خونریزی گجرات کا مقدر بن گئی تھی ۔
’’12 ایئرس آفٹر دی جینو سائڈ ‘‘ کے عنوان سے منعقدہ ایک سمینار میں دونوں کو بطور مہمان مدعو کیا گیا تھا جو سی پی آئی ( ایم ) کی سرپرستی میں ترتیب دیا گیا تھا۔ تقریب کے دوران قطب الدین انصاری نے کہا کہ محبت کیا چیز ہوتی ہے اس کا اندازہ مجھے گجرات چھوڑنے کے بعد ہوا۔ آج بھی سینکڑوں افراد مجھ سے ملاقات کیلئے آتے ہیں لیکن میں صرف اُن لوگوں سے ملتا ہوں جن میں انسانیت ہنوز باقی ہے ۔ پیشہ سے درزی ، قطب الدین انصاری کی تصویر جہاں وہ ہاتھ جوڑکر فرقہ پرستوں سے رحم کی اپیل کررہا ہے ، اس زمانے میں بھی انٹرنیٹ کے دریعہ ساری دنیا میں پھیل گئی تھی حالانکہ بارہ سال قبل انٹرنیٹ کا استعمال اتنا عام نہیں تھا جتنا آج ہے ۔ بہرحال اشوک موچی نے بھی انصاری سے ہاتھ ملاکر یہ اعتراف کیا کہ وہ خود بھی نفرت کے ماحول میں رہنے کے بعد اب مصالحتی زندگی جینا چاہتا ہے۔ جو گزرگیا سو گزر گیا ۔ ماضی بے شک منافرت سے پُر تھا اور اُس نے بھی محبت کی اہمیت کو اُس وقت سمجھا جب اُس نے اپنی ماضی کو بالکل ترک کردیا اور اب انصاری کو میں اپنا بھائی تصور کرتا ہوں ۔ 2002 ء میں جو ہوا وہ سیاستدانوں کی کارستانی تھی اور ہم اُن کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئے تھے ۔