قربانی ۔ احکام ومسائل

حق سبحانہ وتعالی نے ’’سورۃ الکوثر‘‘ میں اپنی بے پناہ نوازشات اوراپنے بے کراں انعامات وعنایات کا ذکر فرماکر ارشاد فرمایا: اے حبیب! (ﷺ) اپنے رب کیلئے نمازاداکیجئے اورقربانی کیجئے(الکوثر:۲)۔نمازجسمانی عبادات میں مہتم بالشان عبادت ہے اورقربانی کا تعلق مالی عبادت سے ہے،مالی عبادات میں قربانی کو اس اعتبارسے اہمیت حاصل ہے کہ ایمان والے اللہ سبحانہ کے نام پر اسکی رضا وخوشنودی کیلئے جانورذبح کرتے ہیں ،جبکہ اہل باطل کی قربانیاں معبودان باطل کی خوشنودی کیلئے ہوتی ہیں۔اسلام میں قربانی کا یہ شعارعقیدئہ توحیدباری کا علمبردارہے جو معبودان باطل کیلئے کی جانے والی قربانیوں کے خلاف گویا ایک عملی جہادہے،قرآن کریم کی بعض آیات میں نماز کے ساتھ زکوۃ کا حکم ہے لیکن یہاں نماز کے ساتھ قربانی کا ذکر فرمایا گیاہے۔زکوٰۃ بھی مالی عبادت ہے جس سے محروم انسانیت مستفیدہوتی ہے،اس حکم کی تعمیل سے معاشرہ کی صلاح وفلاح وابستہ ہے ، قربانی بھی ایسی ہی مالی عبادت ہے جس سے محروم انسانوں کو فائدہ پہنچتا ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس سے مشرکانہ رسوم ورواجات کی بیخ کنی بھی ہوتی ہے۔اللہ سبحانہ کے ہاں اعمال کی قبولیت کا دارومداراخلاص نیت پر ہے اسی لئے فرمایا گیا :بے شک میری نماز اورمیری قربانیاں اورمیرا مرنا اورجینا سب اللہ کیلئے ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے۔ (الانعام :۱۶۳)اللہ سبحانہ کی رضاجوئی اسلام کا حاصل اورتوحید کی روح ہے جس سے اعمال میں جان پیداہوتی ہے،عبدیت وبندگی کا حقیقی جوہر اپنے خالق ومالک کی آگے سرافگندگی ہے۔اس آیت پاک میں ’’نسکی‘‘ سے مراد قربانی بھی ہے لیکن ’’نسک ‘‘کے وسیع تر معنی بھی ہیں جو مناسک حج ،ساری عبادات واعمال زندگی ،معاملات سے متعلق حقوق وفرائض کے ساتھ موت وحیات سے متعلقہ سارے احکام یہاں تک کہ اسلامی نظام حیات کی ساری زندگی میں جلوہ گری کوشامل ہے۔یہ سب کے سب اللہ رب العالمین کیلئے ہوں ظاہرہے جو کام اللہ رب العالمین کی خوشنودی کیلئے ہوں گے وہ اس کے احکامات کی کامل اتباع وپیروی میں ہوںگے۔ ’’نحر ‘‘کے اصل معنی اونٹ کے حلقوم میں نیزہ یا چھری مارکر ذبح کرنے کے ہیں جبکہ اورجانوروں کو زمین پر لٹاکر ذبح کیا جاتاہے ،لیکن یہاں’’ نحر ‘‘ سے مطلق قربانی مراد لی گئی ہے۔اسکے علاوہ بطورصدقہ جانوروں کو قربان کرنا عید الاضحی اوربزمانہ حج منی ٰ یا حدود حرم میں حجاج کرام کا قربانی دینا وغیرہ سب نحر میں شامل ہے۔ سب جانتے ہیں کہ قربانی سیدنا ابراہیم خلیل اللہ وسیدنا اسماعیل ذبیح اللہ علیہما السلام کی مبارک زندگیوں کی ایک بے مثال یادگارہے،حضرات صحابہ کرام نے ایک موقع پر عرض کیا :یا رسو ل اللہ !(ﷺ) یہ قربانیاں کیا ہیں؟آ پ ﷺ نے فرمایا: یہ تمہارے والد سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہیں۔(ابن ماجہ:۳۱۲۷)اس لئے اقطاع عالم میں جہاں جہاں مسلمان رہتے بستے ہیں عیدالاضحی کے موقع پر قربانی کرکے اس عظیم سنت کی یاد تازہ کرتے ہیں،فقہاء احناف کی تحقیق یہ ہے کہ قربانی ہر اس مسلمان پر واجب ہے جومقیم ہواورغنی یعنی مال نصاب کا مالک ہو۔وجوب قربانی کے لئے صدقہ فطر کی طرح قربانی کے دنوں میں مال نصاب کا پایا جانا کافی ہے ، وجوب زکوۃ کی طرح مال نصاب پر سال کا گزرنا شرط نہیں (مجمع الانہر۴؍۱۶۶) (درمختار مع الشامی ۹؍۴۵۲) شوافع وحنابلہ کے ہاں قربانی سنت مؤکدہ ہے۔قربانی ایک اہم ترین عبادت ہے اوراسلام کے شعائرمیں ایک عظیم شعارہے،صاحب حیثیت اگرقربانی نہ کرے تو اس پر سخت وعید وارد ہے، آپ ﷺ نے اپنی ناراضگی اس طرح ظاہر فرمائی ہے کہ وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے (رواہ الحاکم ۲؍۳۸۹) حدیث پاک میں وارد ہے ’’ایام نحریعنی قربانی کے دنوں میں اوراعمال سے زیادہ قربانی کا عمل زیادہ محبوب ہے، قربانی کاجانورقیامت کے دن اپنے سینگ،بال اورکھروں کے ساتھ حاضرہو گا ، قربانی کے وقت خون کے جو قطرے زمین پر گرتے ہیں ان کے زمین تک پہنچنے سے پہلے اللہ سبحانہ اس کو قبول فرمالیتے ہیں،اسی لئے خوشدلی وبشاشت قلبی کے ساتھ قربانی کیا کرو‘‘(ترمذی :۱۴۹۳)اس لئے ایام نحر میں قربانی کرنا اورنیکیوں سے بڑی نیکی ہے۔اوردیگرعبادات واعمال سے زیادہ پسندیدہ ہے،اخلاص نیت سے قربانی کی جائے توسیدنا محمد رسول اللہ ﷺ کا ارشادپاک ہے’’قربانی کی جانورکے بدن پر جتنے بال ہوں ہر ہر بال کے بدلہ ایک ایک نیکی لکھی جاتی ہے ‘‘ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! جس جانورمیں بال زیادہ ہوں؟تو آپ ﷺ نے فرمایا اون کے ہر بال کے بدلہ نیکی ہے(ابن ماجہ:۳۱۲۷) سیدنا محمد رسول اللہ ﷺ نے دودنبوں کی قربانی دی جو دراز سینگ والے اورابلق یعنی سیاہ وسفیدرنگ کے تھے۔آپ ﷺ نے بسم اللہ واللہ اکبرکہہ کر اپنے دست مبارک سے ان دونوں کو علیحدہ علیحدہ ذبح فرمایا ،روایت میں یہ بھی مذکورہے کہ آپ ﷺ نے ایک دنبہ اپنی طرف سے ذبح فرمایا اوردوسرا دنبہ امت کے ان افرادکی طرف سے ذبح فرمایا جو قربانی دینے کی استطاعت نہیں رکھتے۔ (بیہقی : ۱۸۸۲۷) آپ ﷺ نے بوقت ذبح اللہ کا نام لیا اورتکبیر بیان فرمائی اورفرمایا یہ میری طرف سے اورمیری امت کے ان افراد کی طرف سے ہے جنہوں نے توحید کی شہادت دی اورمیری رسالت اورپیام رسالت پہنچانے کی گواہی دی(حوالہ سابق)حدیث پاک میں مذکورالفاظ ’’بسم اللہ واللہ اکبر‘‘سے بوقت ذبح اللہ کا نام لینا یعنی بسم اللہ کہنا عند الاحناف شرط ہے اورتکبیر یعنی’’واللہ اکبر‘‘کہنا تمام علماء کے نزدیک مستحب ہے۔

حدیث پاک میں وارد ان الفاظ کی وجہ تسمیہ یعنی بسم اللہ کہنے کے بعد کلمات تکبیر کو ’’واو‘‘کے ساتھ یعنی ’’واللہ اکبر‘‘ کہنا افضل ہے۔ بکری،اونٹ اورگائے کی قربانی درست ہے،بکری کی صنف میں بھیڑ،دنبہ اور مینڈا وغیرہ۔گائے کی صنف میں بیل،بچھڑا ،بھینس وغیر ہ خواہ وہ مذکرہوں یا مؤنث سب شامل ہیں(تبیین الحقائق:۶؍۴۸۳)صحت قربانی کیلئے بکرایا مینڈا کی عمر ایک سال ہو،دنبہ اگراس قدرتوانا وتندرست ہو کہ وہ چھ مہینہ سے زائد اورایک سال سے کم کا ہونے کے باجود ایک سال کا معلوم ہوتا ہوتو اسکی قربانی درست ہے ۔گائے بیل ،بھینس وغیرہ دوسال کے ہوں اوراونٹ پانچ سال کا ہو(شامی:۹؍۴۶۵۔۴۶۶)گائے کی قربانی شرعا جائز ہے اس پر پابندی لگتی ہے تو ظلم ہے لیکن فتنہ کا اندیشہ ہوتوگائے کی قربانی سے احتراز کیاجانا قرین مصلحت ہے کیونکہ شرکی طرف لیجا نے والی شیٔ بھی شرہے (روح المعانی ۷؍۲۲۵) چھوٹے جانوربکرا،بکری وغیرہ کی صرف ایک فرد کی طرف سے قربانی دی جاسکتی ہے، بڑے جانورجیسے اونٹ،گائے ،بیل وغیرہ میں قربانی کے سات حصے رکھے جاسکتے ہیں البتہ قربانی کے تمام سات شرکاء عبادت وتقرب جیسے قربانی ،ولیمہ یا عقیقہ کی نیت سے شریک ہوں ، اگرکوئی ایک شریک بھی کسی اورغرض سے شریک ہوتو تمام شرکاء کی قربانی درست نہیں ہوگی(ملتقی الابحر:۴؍۱۶۷۔۱۶۸)تمام شرکاء کے درمیان جبکہ وہ اپنا مکمل حصہ لینا چاہتے ہوں تمام حصہ داروں کے درمیان گوشت کے حصوں کی تقسیم منصفانہ طورپر تول کر کی جانا ضروری ہے ،اگرتمام شرکاء کمی زیادتی پر رضامند ہوں تو اندازہ سے بھی حصے بنائے جاسکتے ہیں (حوالہ سابق) البتہ بڑے جانورمیں کسی نے نذرکی قربانی کی نیت سے شرکت کی ہوتواسکا حصہ تول کر دیا جانا ضروری ہے کیونکہ نذرکی قربانی کے گوشت کا استعمال نہ شریک کیلئے جائز ہے اورنہ کسی مالدارکیلئے ،چونکہ نذرکے گوشت کے صرف فقراء مستحق ہیں (تاتارخانیہ: ۱۷؍۴۱۵) بڑے جانورمیں شریک سات شرکاء متعین ہوں تو بوقت ذبح ان میں سے ہر ایک کا نام لینا ضروری نہیں بلکہ مطلق ذبح کردینے سے ان سب کی قربانی اداہوجائے گی(الاشباہ والنظائر:۴۰) قربانی کے جانورکا عیب ونقص سے پاک ہونا ضروری ہے ،سینگ جڑ سے ٹوٹ گئی ہو تو اسکی قربانی درست نہیں ورنہ درست ہے ،پیدائشی طورپر سینگ نہ ہوں تب بھی قربانی جائز ہے ،کان کا اکثرحصہ کٹ گیا ہو تو قربانی درست نہیں ورنہ درست ہے ۔پیدائشی طورپر جس جانور کے کان نہ ہوں ،آنکھ کی بینائی بالکل نہ ہو یا اکثرزائل ہوگئی ہو یا جس جانورکے دانت بالکل نہ ہوں یا اکثرٹوٹ چکے ہوں ،زبان کٹے ہوئے جانورجوچارہ چرنے پر قادرنہ ہوں ،دم کٹے جانورجبکہ دم کااکثرحصہ کٹا ہوا ہو اسی طرح جو جانوربالکل لنگڑا ہویا تین پیرزمین پر رکھ سکتا ہو اورچوتھا پاؤں زمین پر بالکل نہ ٹیک سکتا ہو تو ان تمام کی قربانی شرعا جائز نہیں (شامی،کتاب الاضحیۃ) خصی جانورکی قربانی افضل ہے کیونکہ اسکا گوشت اچھا اورلذیذہوتا ہے (ہندیہ:۵؍۲۹۹)قربانی کے تین دن ہیں : دس، گیارہ اوربارہ ذی الحجہ،دس ذی الحجہ کو صبح صادق سے اسکا وقت شروع ہوجاتاہے اوربارہ ذی الحجہ غروب آفتاب سے قبل تک رہتاہے(ملتقی الابحر: ۴؍۱۶۹) اس سے قبل یا اسکے بعد قربانی کی جائے تو شرعا معتبرنہیں(ہندیہ۵؍۲۹۵)لیکن دس ذی الحجہ کا دن قربانی کیلئے زیادہ افضل ہے ، اسکے بعد گیارہ اوربارہ ذی الحجہ کی فضیلت ہے (مجمع الانہر:۴؍۱۷۰) دس اورگیارہ ذی الحجہ کے بعد والی رات میں قربانی کی جاسکتی ہے لیکن رات کے وقت روشنی کی کمی کی وجہ مکروہ ہے کہ کہیں تاریکی کے احتمال کی وجہ سنت کے مطابق ذبح میں کوئی نقص نہ رہ جائے۔(بدائع الصنائع: ۴؍۲۲۳) شہروں میں نماز عیدکی ادائیگی سے قبل قربانی درست نہیں، ہاں! البتہ شہر میں کسی ایک جگہ نماز عید اداہوگئی ہو توشہریوں کیلئے قربانی کرنا جائز ہے گوکہ انہوں نے نماز عید ادانہ کی ہو،تاہم دیہاتوں اورقریوں میں رہنے والوں کیلئے یہ شرط نہیں ہے کیونکہ دیہات اورقریہ میں نماز عیدکا قائم کرنا واجب نہیں اسلئے وہ اگرصبح صادق کے بعد قربانی کرلیتے ہیں تو شرعا درست ہے البتہ سورج طلوع ہونے کے بعد اگروہ قربانی کریں تو افضل ہے کیونکہ انکے لئے یہ وقت مستحب ہے (ہندیہ:۵؍۲۹۵)نا بالغ یا مجنون اگرچہ وہ مال دار ہی کیوں نہ ہوں ان پر اور ان کے اولیاء پرانکی طرف سے قربانی واجب نہیں البتہ نابالغ اولاد کی طرف سے قربانی دی جائے تو مستحب ہے(شامی:۹؍۴۵۸) ریاء اور دکھاواسے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں، اور اعمال کی طرح قربانی میں بھی اخلاص نیت کی بڑی اہمیت ہے،محض دکھاوے،شہرت اورناموری کیلئے زیادہ قیمت کے فربہ جانورخریدے جائیں اور اس پر تفاخر کیا جائے تو یہ روح قربانی کے منافی ہے۔ارشاد باری ہے’’اللہ سبحانہ کو نہ تو قربانیوں کا گوشت پہنچتا ہے نہ انکا خون لیکن اس تک پہنچنے والی چیز تمہارے دل کا تقوی اورپرہیز گاری ہے ‘‘(الحج:۳۷)اس لئے قربانی کا عمل خالص اللہ کی رضا کیلئے ہو ،چونکہ ریاء ودکھاوے سے کیا جانے والا عمل اللہ کے ہاں مقبول نہیں ،تقوی ہی شرف قبولیت کا معیارہے ۔