قربانی کے ضروری و بنیادی مسائل

مولاناشیخ محمد عبد الغفور قادری

قربانی مسلمان، عاقل، بالغ، مقیم، صاحب نصاب (مالدار) پر واجب ہے۔ مسلمان ہونا شرط ہے۔ اگر کوئی غیر مسلم ذی الحجہ کی دس، گیارہ یا بارہ تاریخ کو (غروب آفتاب سے پہلے) مسلمان ہو جائے اور مالدار ہے تو اس پر بھی قربانی واجب ہوتی ہے۔
عاقل سے مراد سمجھدار ہے، اگر کوئی پاگل، یا ایسا ناسمجھ ہو کہ اپنے اچھے برے کی تمیز نہیں کرسکتا تو اس پر قربانی واجب نہیں۔ اسی طرح نابالغ بچوں پر بھی قربانی واجب نہیں ہے، چاہے یہ دونوں (مجنون اور بچہ) مالدار ہی کیوں نہ ہوں۔ قربانی کے لئے آدمی کا مقیم ہونا بھی ضروری ہے، اگر کوئی مسافر ہو تو اس پر قربانی واجب نہیں (شرعی مسافر اس کو کہتے ہیں، جو اپنے مقام سکونت سے اسی (۸۰) کیلو میٹر سے آگے سفر کرے اور وہاں پر اس شخص کی پندرہ دن سے کم رہنے کی نیت ہو) اگر مسافر ذی الحجہ کی بارہویں تاریخ کو عصر سے پہلے اپنے وطن کو واپس آجائے تو اس پر قربانی واجب ہو جائے گی۔
صاحب نصاب کی وضاحت
صاحب نصاب کے متعلق قربانی اور زکوۃ کے مسئلہ میں تھوڑا سا فرق ہے، زکوۃ کے لئے صاحب نصاب کے پاس مال نصاب پر ایک سال کا گزرنا ضروری ہے، مگر قربانی میں ایسا نہیں ہے، بلکہ قربانی کی مقررہ تاریخوں (یعنی۱۰،۱۱،۱۲؍ ذی الحجہ) میں کبھی بھی اس کے پاس پیسہ آجائے تو اس پر قربانی واجب ہو جائے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر کسی کے پاس اپنی حاجت اصلیہ کے علاوہ سامان یا پیسہ ہو تو قربانی واجب ہے۔
حاجت اصلیہ کس کو کہتے ہیں؟
رہنے کے لئے گھر (مکان)، پہننے کے کپڑے، گھریلو استعمال کا سامان، سواری کے جانور یا گاڑی، استعمال کے ہتھیار، اہل حرفت و پیشہ وروں کے آلات (اگر کوئی آٹو یا کار ڈرائیور ہے اور اس کا ذاتی آٹو یا کار وغیرہ ہے تو وہ اس کے پیشہ کی چیز ہے) اہل و عیال کے لئے غلہ اور کھانے پینے کی چیزیں، اپنے پڑھنے کی یا استعمال کی کتابیں، اسی طرح چاندی سونے کے علاوہ گھر کی آرائش کی چیزیں، حاجت اصلیہ میں ہیں، ان پر زکوۃ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ جو چیزیں ہوں، وہ حاجت اصلیہ سے زائد ہیں، ان کی قیمت کے حساب سے زکوۃ دینا ہوگا اور اس پر فطرہ و قربانی بھی واجب ہوتی ہے۔ (عام کتب فقہ)
عورتوں پر بھی قربانی واجب ہے
جس طرح مردوں پر قربانی واجب ہے، اسی طرح عورتوں پر بھی قربانی واجب ہے۔ عورت کے پاس نصاب کے برابر زیورات یا اتنا پیسہ یا جائیداد وغیرہ ہو تو اس پر قربانی واجب ہے اور اس کا ادا کرنا عورت پر ضروری ہے۔ اگر ادا نہ کرے تو وہ اللہ کے پاس جوابدہ رہے گی۔
بعض عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ گھر کے بڑوں کی طرف سے ایک قربانی ہو گئی تو سب کی جانب سے ادا ہو جائے گی، ایسا نہیں ہے، بلکہ بیوی کی قربانی بیوی کو اور شوہر کی قربانی شوہر کو دینا واجب ہے۔ بیوی کی جانب سے اس کی اجازت کے بغیر اگر شوہر قربانی دے تو ادا نہ ہوگی، ہاں بیوی کی اجازت سے یا بیوی کے کہنے پر شوہر اپنی اور بیوی کی طرف سے قربانی دے تو دونوں کی جانب سے ادا ہو جائے گی۔
اگر کسی ملک میں یہ رواج ہو کہ شوہر اپنی بیوی کی طرف سے اور اسی طرح والد اپنی بالغ اولاد کی طرف سے قربانی کردیا کرتا ہے اور لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ شوہر یا والدین کی جانب سے قربانی کردیتے ہیں تو اس ملک کے رواج اور عرف کے اعتبار سے قربانی ادا ہو جائے گی، اس میں صریح اجازت لینے کی کوئی ضرورت نہیں۔ (درمختار)بعض جگہ یہ ہوتا ہے کہ ایک سال بیوی کے نام سے اور ایک سال شوہر کے نام سے قربانی کرتے ہیں، یہ بھی درست نہیں ہے۔ اگر دونوں پر واجب ہے تو دونوں کو علحدہ علحدہ ہر سال قربانی دینا ہوگا۔ اگر بکرے کی قربانی نہیں دے سکتے تو پھر بڑے جانور (گائے، بیل، بھینس، اونٹ) میں ایک ایک حصہ کے شریک ہو جائیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کس طرح قربانی کرتے تھے
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کو ہجرت کرنے کے بعد ہمیشہ قربانی دیتے رہے اور ہر سال دو دنبوں کی قربانی کیا کرتے تھے، ایک اپنی جانب سے اور ایک اپنی امت کی جانب سے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کے جانور کو بنفس نفیس اپنے ہاتھوں سے ذبح فرماتے تھے، جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو خوش رنگ سینگ والے مینڈھوں کی قربانی کی۔ ان دونوں کو اپنے ہاتھوں سے ذبح فرمایا اور اس پر اللہ کا نام لیا اور تکبیر کہی۔ میں نے ان بکروں کی گردنوں پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا قدم مبارک رکھے ہوئے دیکھا اور پھر آپ نے فرمایا ’’بسم اللہ واللہ اکبر‘‘۔ (بخاری و مسلم)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگ والے بکرے لانے کا حکم دیا، جو سیاہی میں چلے اور سیاہی میں بیٹھے اور سیاہی میں دیکھے، یعنی جس کے پیر، سر اور پیٹ کا حصہ کالا ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایسے بکرے کو حاضر کیا گیا، تاکہ آپ اس کی قربانی کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے عائشہ! چھری لاؤ!‘‘۔ پھر فرمایا ’’چھری کو پتھر پر تیز کرلو!‘‘۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ایسا ہی کیا۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے چھری لی اور بکرے کو چت لٹایا، پھر اس کو ذبح فرمایا، پھر دعاء کی ’’بسم اللہ، اے اللہ! اس قربانی کو محمد اور آل محمد اور امت محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف سے قبول فرما‘‘ (مسلم) قربانی دینے والے کو چاہئے کہ جانور کو وہ خود ذبح کرے۔ اگر ذبح کرنا اچھی طرح نہیں جانتا یا اس کو ڈر ہوتا ہو تو کسی اور سے ذبح کروا سکتا ہے، ایسی صورت میں صاحب قربانی جانور ذبح ہوتے وقت وہاں پر موجود رہے تو بہتر ہے۔
قربانی دینے والے کے احکام
حدیث شریف میں ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ ’’جب عشرہ آجائے (ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہو جائے) اور تم میں سے کوئی قربانی کرنا چاہے تو اپنے بال و کھال کو ہاتھ نہ لگائے‘‘ اور ایک روایت میں ہے کہ ’’جو بقرعید کا چاند دیکھے اور قربانی کرنا چاہے تو وہ نہ اپنے بال کاٹے اور نہ ناخن‘‘۔ (مسلم)
کن جانوروں کی قربانی درست ہے
قربانی کے جانور تین قسم کے ہیں (۱) بکری (۲) گائے (۳) اونٹ۔ ان تینوں قسم کے پالتو جانوروں نر اور مادہ دونوں کی قربانی ہو سکتی ہے۔ گائے میں بیل، بھینس، بھینسہ (کھلگا) شامل ہیں، اسی طرح بکری میں بکرا، دنبہ، مینڈھا اور مینڈھی سب داخل ہیں۔
جنگلی جانوروں کا حکم
جنگلی گائے، جنگلی بھینس، اسی طرح ہرن وغیرہ کی قربانی صحیح نہیں ہے، اگرچہ کہ یہ جانور حلال ہیں، لیکن قربانی کے لئے مذکورہ پالتو جانور ضروری ہے (کوئی ان جنگلی جانوروں کی قربانی کرے تو قربانی ادا نہ ہوگی) جانوروں کا تعین شرعی ہے، اس میں قیاس کا کوئی دخل نہیں ہے اور مذکورہ جانوروں کے علاوہ دوسرے جانوروں کی قربانی دینا جائز نہیں ہے۔ (عالمگیری)
مسئلہ:۔ جنگلی گائے، بھینس، بکری، بھیڑ اور دنبہ کی قربانی درست نہیں۔
مسئلہ:۔ اگر جنگلی گائے، بھینس، بکری، دنبہ، ہرنی یا کوئی جانور پکڑکر کوئی پال لے اور وہ پالتو جانوروں کی طرح ہو جائے، تب بھی اس کی قربانی جائز نہیں۔مسئلہ:۔ اگر جنگلی اور پالتو جانور سے گائے، بھینس، بکری پیدا ہو تو اس صورت میں مادہ کے اعتبار سے حکم لگایا جائے گا۔ اگر مادہ پالتو (اہلی) ہے تو قربانی جائز ہے اور اگر مادہ جنگلی ہے تو قربانی جائز نہیں۔
جانور کی عمر
بکری کی عمر ایک سال ہونا ضروری ہے۔ اگر بکری ایک سال سے کم عمر کی ہے اور اس کی قربانی دی جائے تو قربانی ادا نہ ہوگی۔ اگر دنبہ ایک سال سے کم ہے، مگر اتنا بڑا ہے کہ ایک سال کے بکروں میں چھوڑ دیا جائے تو ان کے برابر کا نظر آتا ہے تو اس دنبہ کی قربانی درست ہے۔ (کتاب فقہ )
مسئلہ:۔ اگر قربانی کے جانور کی عمر معلوم نہ ہو اور کوئی واقف کار و معتبر مسلمان مرد یا عورت گواہی دے کہ اس جانور کی یہ عمر ہے تو ان کی گواہی معتبر ہوگی۔
مسئلہ:۔ اگر کوئی ایک معتبر مسلمان کہے کہ اس جانور کی عمر قربانی کی ہے اور دو تین معتبر مسلمان کہیں کہ اس جانور کی عمر قربانی کی نہیں ہے تو بوجہ کثرت رائے ان لوگوں کی گواہی معتبر ہوگی۔
گائے کے لئے دو سال کا ہونا ضروری ہے، اس سے کم عمر والی گائے، بیل، بھینس، بھینسہ کی قربانی درست نہیں ہے۔
اسی طرح اونٹ کے لئے پانچ سال کا ہونا ضروری ہے، اس سے کم عمر کے اونٹ کی قربانی درست نہیں ہو سکتی۔ (عام کتب فقہ)
بکری کی عمر کے متعلق حدیث شریف میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ایک سال سے کم عمر بکری کو ذبح نہ کرو، مگر جب دشوار ہو (مہیا نہ ہو) تو چھ ماہ کا دنبہ ذبح کرو‘‘۔(مسلم)