قربانی کے ساتھ خواہشات نفسانی کو قربان کرنا

بوقت صبح ابراھیمؑ نے اُٹھکر دعا مانگی
سکونِ قلب مانگا خوئے تسلیم و رضا مانگی
کہ اے مالک عمل کو تابع ارشاد کرتا ہوں
میں بیوی اور بچے کو یہاں آباد کرتا ہوں
اسی سنسان وادی میں انہیں روزی کا سامان دے
اسی بے برگ و سامانی کو شانِ صد بہاراں دے
یہیں پر نسلِ ابراھیم بڑھکر قوم ہوجائے
اسی وادی میں تیرا ہادی موعود ہو پیدا
کرے جو فطرت انساں کو تیرے نام پر شیدا
’’قربانی ‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس سے ہر وہ عمل یا شئی مراد ہوتا ہے جس کو انسان اﷲ تعالیٰ کے حضور میں تقرب کے لئے پیش کرتا ہے خواہ وہ قربانی کا جانور ہو یا نذر و نیاز ہو یا عام خیرات و صدقات ہو۔ (الراغب : مفردات القرآن بذیل مادہ قرب ) اور یہ لفظ قربان عرف عام میں جانور کی قربانی کے لئے بولا جاتا ہے ’’قربان ‘‘ عربی مصدر کے آگے یائے تحتانی اضافہ کرکے ’’قربانی ‘‘ کہتے ہیں جس طرح خلاص سے خلاصی اور فلاں سے فلانی کہا جاتا ہے ۔
قربانی درحقیقت حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی انتہا درجہ کی جاں نثاری کی یادگار ہے ۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اﷲ تعالیٰ کے اشارہ پر ضعیفی کی عمر میں اپنے اکلوتے نومولود لڑکے کو اپنی اہلیہ محترمہ حضرت ہاجرہ علیھا السلام کے ہمراہ مکۃ المکرمہ کی بے آب و گیاہ سنگلاخ وادی میں تنہا چھوڑ آئے ۔ اس وقت نہ کوئی انسان وہاں بستا تھا اور نہ ہی وہاں رہائش کے اسباب موجود تھے ۔ گویا حضرت ابراھیم علیہ السلام موت کے اندھیرے میں اپنے بیوی بچے کو چھوڑکر واپس ہوگئے ۔ یہ خدا کی ذات پر توکل کی انتہاء ہے ۔ اگر اﷲ تعالیٰ کی مدد شامل حال نہ ہو تو گویا بیوی بچے کو بھوکا پیاسا تڑپ تڑپ کر مرنے کے لئے چھوڑ جانا تھا لیکن حضرت ابراھیم علیہ السلام کی اس قربانی کے ایسے ثمرآور نتائج برآمد ہوئے کہ سنگلاخ وادی تا قیام قیامت توحید و ایمان کا مرکز بن گئی ۔ اسی سرزمین سے تخلیق کائنات کامقصد پورا ہوا اور اسی زمین پر محبوب کردگار خاتم النبیین سلطان الانبیاء کی ولادت باسعادت ہوئی جن کی بعثت سے ایمان اور منشاء الٰہی کی تکمیل ہوئی ۔
حضرت ابراھیم علیہ السلام کی قربانی کا سلسلہ اسی پر ختم نہیں ہوا بلکہ قربانی آپ کی ضعیفی اور اکلوتے فرزند کی جوانی کے ساتھ مزید پُرآزمائش ہوتی گئی اور آپ کو اپنے ہاتھوں سے اپنے فرزند دلبند کو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں قربان کردینے کا حکم ہوا ۔ واضح رہے کہ یہ قربانی صرف حضرت ابراھیم علیہ السلام کے جذبۂ قربانی کی یادگار نہیں بلکہ اس میں حضرت اسمٰعیل علیہ السلام بھی برابر کے شریک رہے ۔ چنانچہ حضرت ابراھیم علیہ السلام حکم خدا کا اظہار اپنے فرزند ارجمند سے کیا اور فرزند نے جس جذبۂ تسلیم و رضا سے جواب دیا وہ سارا مکالمہ قرآن مجید نے قیامت تک کے لئے اپنے سینے میں آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کیا۔ چنانچہ ارشاد الٰہی ہے: انھوں ( حضرت ابراھیم علیہ السلام ) نے کہا میں اپنے رب کی طرف جاتا ہوں وہ مجھ کو سیدھی راہ چلائے گا ۔ اے میرے پروردگار! تو مجھکو نیک اولاد عطا فرما تو ہم نے انھیں ایک بردبار لڑکے کی بشارت دی ۔ جب وہ (فرزند) ان (والد) کے ساتھ دوڑنے کی عمر کو پہنچے تو انھوں نے کہا اے میرے پیارے بیٹے ! میں دیکھ رہا ہوں کہ میں تمکو ذبح کررہا ہوں پس تم غور کرو تمہاری کیا رائے ہے ۔ انھوں نے کہا اے ابا جان! آپ کر گزرئیے جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے آپ مجھے ان شاء اللہ صبر کرنے والوں میں پائیں گے ۔ پس جب وہ دونوں حکم الٰہی پر سرتسلیم خم کئے اور انھوں نے (فرزند ) پیشانی کے بل لٹادیا پس ہم نے انھیں ندا ادی ۔ اے ابراہیم ! تم نے خواب کو سچ کر دکھایا ، یقینا ہم اسی طرح احسان کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں ۔ بلاشبہ یہ ایک واضح آزمائش ہے اور ہم نے ان کا فدیہ ایک عظیم ذبیحہ جانور سے کردیااور ہم نے بعد آنے والوں میں ان کے نام کو باقی رکھا۔ ابراھیم پر سلامتی ہو اسی طرح ہم احسان کرنے والوں کو بدلہ دیتے ہیں ۔ بلاشبہ وہ ہمارے مومن بندوں میں سے ہیں۔ (سورۃ الصفت)
پس اسلام میں قربانی کامفہوم و منشا خود اس کے لفظ سے واضح ہے کہ قربانی کے معنی رضائے الٰہی کو پانا اور اس کے قرب خاص میں شامل ہونا ہے اور یہ قرب خاص خواہشات نفسانی کی قربانی اور تسلیم و رضا کے پیکر بننے سے حاصل ہوتی ہے اور حقیقی قربانی اپنے نفس کی قربانی ہے اور نفسانیت ہی اﷲ تعالیٰ کے قرب میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ بڑے بڑے جانور کو قابو پاکر اسکو ذبح کرنا آسان ہے لیکن نفس پر قابو پانا اور اس کی خواہشات کو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں قربان کرنا بہت مشکل کام ہے ۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ قربانی کے جانور کا گوشت اور اس کا خون اﷲ تعالیٰ کو نہیں پہنچتا ۔ حقیقت میں اﷲ تعالیٰ کو تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے ۔ (سورۃ الحج : ۲۲)
قربانی کامقصود دل میں تقویٰ کی کیفیت پیدا کرنا ہے اور یہی تقویٰ کی کیفیت مسلمان کو اﷲ تعالیٰ کے گناہ ، نافرمانی اور خواہشات نفسانی سے دور رکھتی ہے اور اس کے دل میں خدا کی محبت اور اس کے قریب کرنے والے اعمال کی بیج بوتی ہے اور مسلمان اسی کیفیت سے اﷲ تعالیٰ کا فرمانبردار ، نیکوکار بندہ بن جاتا ہے ۔
قربانی کی عید کے موقع پر واجب قربانی دینے کے ساتھ مقصد قربانی کو حاصل کرنے کی جستجو کرنا اصل کامیابی ہے ۔ مقصدِ قربانی یعنی خواہشات نفسانی کی قربانی کے بغیر صرف فربہ جانوروں کو ذبح کردینا آسان عمل ہے ۔