مفتی محمد عبد المغنی مظاہری
مؤمنانہ، فداکارانہ اور جاں نثارانہ جذبات پر مشتمل زندگی کی سچی تصویر ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ اگر آپ ان کی حیات مقدسہ اور سیرت مبارکہ کا مطالعہ کریں تو یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ان کی پوری زندگی ہی قربانیوں میں گزری ہے۔ مؤمنانہ زندگی کا یہی وہ اسلامی رنگ و آہنگ ہے، جس کو قرآن حکیم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبانی اس طرح بیان کیا ہے۔ ترجمہ: میں متوجہ کرلیا اپنے منہ کو اسی کی طرف جس نے بنائے آسمان اور زمین سب سے یکسو ہوکر اور میں نہیں ہوں شرک کرنے والا‘‘ (سورۃ الانعام۔۷۹) اس آیت میں اللہ تعالی نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مؤمنانہ و فداکارانہ جذبات خود ان کی زبان ذکر فرمائے ہیں۔ اس ذکر سے جہاں رہتی دنیا تک کے لوگوں کو اسی جذبہ کی تعلیم دینا مقصد ہے، وہیں یہ ظاہر کرنا بھی مقصد معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کو ان کے یہ جذبات کس قدر پسند ہیں۔ اسی لئے اللہ تعالی نے اپنے آخری رسول محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا کہ آپ بھی اپنی زبان حق ترجمان سے ان ہی جذبات کا اظہار فرمائیے۔ ارشاد باری ہے: ’’آپ کہہ دیجئے کہ مجھ کو میرے رب نے ایک سیدھا راستہ بتلا دیا ہے کہ وہ ایک دین ہے مستحکم، جو طریقہ ابراہیم (علیہ السلام) کا اور جس میں ذرا کجی نہیں اور وہ شرک کرنے والوں میں سے نہ تھے۔ آپ فرمادیجئے! بالیقین میری نماز اور میری ساری عبادات اور میرا جینا اور مرنا سب خالص اللہ ہی کے لئے ہے جو مالک ہے سارے جہاں کا، اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھ کو اسی کا حکم ہوا ہے اور میں سب ماننے والوں میں سے پہلا ماننے والا ہوں‘‘۔ یہ وہ جذبات ہیں جو حق پرست اور سچے خدا رسیدہ لوگوں سے مطلوب ہیں اور یہی وہ طرز زندگی ہے، جس کو ’’اسلام‘‘ کہا جاتا ہے۔ بہرحال دین اسلام کے اندر بہت سے ایسے احکام ملتے ہیں، جن سے دنیوی زندگی میں خدا کی یاد اور اس کا ہر آن استحضار غالب ہوتا ہے اور دنیا کی کشش اور اس کی محبت مغلوب ہوجاتی ہے۔ ان ہی احکام میں سے ایک حکم قربانی کا بھی ہے، جو آدمی میں اس جذبہ کو فروغ دیتا ہے کہ اسے زندگی میں خدا کی رضا و خوشنودی کے حصول کے لئے جانی و مالی ہر قسم کی قربانیوں کے لئے ہمیشہ تیار رہنا چاہئے۔
لفظ قربانی لغوی اعتبار سے اس چیز کے لئے بولا جاتا ہے، جس کو کسی کے قرب کا ذریعہ بنایا جائے اور اصطلاح شرع میں اس ذبیحہ وغیرہ کو کہا جاتا ہے، جو اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرنے کے لئے ذبح کیا جائے۔ پس قربانی کو قربانی اس لئے کہا جاتا ہے کہ ہم اس کے ذریعہ اللہ تعالی کا تقرب حاصل کرتے ہیں۔ برصغیر ہند۔ پاک میں نیاز کے ذبیحہ کو ’’قربانی‘‘ کے لفظ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ قربانی کا لفظ مذکورہ آیت کے لفظ ’’قربان‘‘ ہی سے لیا گیا ہے، ورنہ اضحیہ اور نیاز کے ذبیحہ کے لئے ’’نسک‘‘ کا لفظ بھی بولا جاتا ہے۔
غرض انسانی زندگی میں قربانی کا تصور اور اس کا طریقہ کسی نہ کسی شکل میں ہمیشہ موجود رہا ہے اور ہر زمانے میں اس کو عبادت خیال کیا جاتا رہا۔ لوگ ہمیشہ اس کو بڑی عقیدت و احترام کے ساتھ انجام دیتے رہے ہیں اور آج بھی مسلمانوں کے علاوہ بہت سے غیر مسلم اقوام بالخصوص برادران وطن میں قربانی کا تصور اور اس کا طریقہ کار ایک خاص شکل میں موجود ہے۔ نیز قرآن کریم نے بھی اسی بات کو واضح کیا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ترجمہ: ’’اور ہم نے ہر امت کے لئے قربانی کرنا اس غرض سے مقرر کیا تھا کہ وہ ان مخصوص چوپایوں پر اللہ کا نام لیں، جو اس نے ان کو عطا فرمایا تھا، سو تمہارا معبود ایک ہی خدا ہے تو تم اسی کے ہوکر رہو اور آپ گردن جھکا دینے والوں کو خوش خبری سنا دیجئے جو ایسے ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور ان مصیبتوں پر کہ جو ان پر پڑتی ہیں صبر کرتے ہیں اور جو نماز کی پابندی کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے، اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘ (سورۃ الحج۔۳۴،۳۵) مذکورہ دونوں آیتوں میں اس بات کی وضاحت کردی گئی ہے کہ قربانی کرنا کوئی نیا حکم نہیں ہے، بلکہ یہ ہر قوم و ملت میں مقرر کیا ہوا ایک عمومی فریضہ ہے، جس پر عمل آوری کرتے ہوئے خدا کا تقرب حاصل کرنا چاہئے۔حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی حیات مبارکہ میں قربانیوں کا ایک تسلسل ہے، بلکہ آپ نے حیات کے ہر گوشے میں بڑی سی بڑی قربانیاں پیش کی ہیں۔ علاوہ ازیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ وہ فرزند جو تمہاری دعاء کو قبول کرنے کے بعد ہم نے تمھیں بخشا ہے، اس فرزند ارجمند کو اور ان کی والدہ کو ایک دور دراز بے آب و گیاہ میدان میں چھوڑ آؤ۔ پھر اس کے بعد اس اہم ترین قربانی پر بھی نگاہ کیجئے کہ چشم فلک نے آج تک اس جیسی قربانی کا نظارہ نہیں کیا اور نہ ہی کرے گی۔ حقیقت میں یہ بڑا امتحان تھا اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے عوض میں دیا (کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام سے وہ ذبح کرایا گیا) اور ہم نے پیچھے آنے والوں میں یہ بات ان کے لئے رہنے دی کہ ابراہیم پر سلام ہو، ہم مخلصین کو ایسا ہی صلہ دیا کرتے ہیں، بلاشبہ وہ ہمارے ایماندار بندوں میں سے تھے‘‘۔