مفتی محمد عبدالمغنی مظاہریؔ
ماہِ ذی الحجہ اسلامی سال کا آخری مہینہ ہے جس میں حج جیسی عظیم الشان عبادت اور قربانی جیسی مہتم بالشان بندگی انجام دی جاتی ہے اس کے علاوہ اس عظیم مہینہ کے پہلے دس دن مبارک ومسعود ہیں تو اس کی دس راتیں نہایت مقدس ومحترم ہیں۔ اور دسواںدن عید کا ہے تو 10،11،12، تین دن قربانی کے ہیں اور پانچ ایام تکبیرتشریق کے ہیں اِس اعتبار سے سال کا آخری مہینہ مختلف سعادتوں وبرکتوں کا گلدستہ مہینہ ہے پہلے دس دن اور اسکی پہلی دس راتوں کے تقدس واحترام کی خود اللہ تعالیٰ نے وَلَیَالٍ عَشْرْ کے ذریعہ قسم کھائی ہے، اِن 10راتوں سے اکثر علماء کرام نے اِسی مہینہ کی پہلی دس راتیں مراد لی ہیں۔ اس کے علاوہ صاحبِ شریعت نبیٔ رحمت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلئے عشرۂ ذی الحجہ سے بہتر کوئی زمانہ نہیں ہے یعنی اِن دس دنوں میں کیا گیا نیک عمل اور عبادت اللہ تعالیٰ کو اور دنوں کی عبادت و اس کے نیک عمل سے زیادہ بہتر اور محبوب ہوتا ہے، صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ کیا جہاد فی سبیل اللہ سے بھی زیادہ اس عشرہ کی عبادت اللہ کو محبوب ہوتی ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ہاں‘‘ جہاد فی سبیل اللہ سے بھی زیادہ مگر یہ کہ وہ شخص جو اپنی جان اور مال لیکر اللہ کے راستہ میں نکلا اور پھر کچھ لیکر واپس نہیں آیا۔ (بخاری بحوالہ مشکوٰۃ) ایک دوسری حدیث میں اِس عشرہ کی فضیلت وبرکت ظاہر کرتے ہوئے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کی عبادت کیلئے عشرۂ ذی الحجہ سے بہتر وافضل کوئی زمانہ نہیں ہے۔ اس عشرہ میں رکھاگیا ایک روزہ ایک سال کے روزوں کے برابر ہے اور ایک رات کی عبادت وبندگی شب قدر کی عبادت وبندگی کے برابر ہے۔ (ترمذی وابن ماجہ)
اھراقِ دم (خون بہانا)
قربانی ایک اہم عبادت ہے اور شعائراسلام میں سے ہے اس کا اجروثواب بھی بہت زیادہ ہے۔ آخرت کے اجروثواب کے ساتھ ساتھ دنیاوی اعتبارسے بھی یہ عبادت مختلف اقوام کیلئے متعدد فوائد کا ذریعہ بھی ہے۔ جیساکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ولکم فیہامنافع الی اجل مسمی اسی لئے ہرزمانہ میں قربانی کا معمول رہاہے۔ البتہ قربانی کی کیفیت مختلف رہی ہے۔ یہ قربانی جس کو عظیم نیکی اور اسلامی شعائرقرار دیا ہے
یہ اللہ کی رضا کیلئے مخصوص تاریخوں میں مخصوص قسم کے جانور کو ذبح کرنے کی صورت میں پوری کی جاتی ہے جس کا ایک نام ’’اھراقِ دم‘‘ بھی ہے ۔ قربانی کے جانور پر جتنے بال ہوتے ہیں ہرہربال کے عوض ایک ایک نیکی لکھی جاتی ہے۔ (احمد؍ ابن ماجہ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ قربانی کے دنوں میں اللہ تعالیٰ کو قربانی کرنے سے زیادہ اور کوئی عمل پسندیدہ نہیں ہے۔ اِن دنوں میں قربانی کرنا تمام نیکیوں سے بڑھ کر نیکی ہے، قربانی کا جانور ذبح کرتے وقت خون کا جو خطرہ زمین پر گرتاہے وہ زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی اللہ کے یہاں مقبول ہوجاتا ہے لہٰذا انتہائی خوش دلی کے ساتھ قربانی کرو۔ (ترمذی؍ ابن ماجہ)اسی لئے آپ ﷺ بڑے ذوق وشوق سے قربانی فرمایا کرتے تھے چنانچہ عبداللہ ابن عمرؓ فرماتے ہیں: ہجرت کے بعد آپ ﷺ مدینہ میں دس برس رہے اور ہرسال آپ ﷺ قربانی دیا کرتے تھے اور مسلمانوں کو اس کی تاکید فرمایا کرتے تھے۔ جس عمل کو آپ نے ہرسال فرمایا ہے اور اس کی پرزور تاکید فرمائی اور ناغہ نہیں کیا اُس کے واجب ہونے میں اور مسلمانوں کیلئے نافع ومفید ہونے میں، نیز شعائراسلام میں سے ہونے میں، ادنی درجہ کابھی شک وشبہ نہیں کیا جاسکتا ہے جبکہ اس کی اصل اور تاریخ سیدنا ابراہیمؑ کی اُس قربانی سے ملتی ہے جس میں اللہ نے انہیں اپنے فرزند حضرت اسمٰعیلؑ کو قربان کرنے کا حکم دیا اور انہوں نے اس کی تعمیل میں اپنے فرزند کو قربان کردیا یعنی ذبح کردیا یہ اللہ کی قدرت ہے کہ اللہ نے ذبح ہونے نہیں دیا اور اس کے بدلہ میں جنت سے مینڈھا بھیج دیا اور وہ اُن کی جگہ ذبح ہوا جس کے بعد اللہ نے سیدنا حضرت ابراہیم ؑ کی کامیابی کا قرآن کے ذریعہ اعلان فرمایا اور اُن کے حق میں تعریفی وتوصیفی کلمات نازل فرمائے۔ مسلمانوں کا ہرسال جانور ذبح کرنا حضرت ابراہیم وحضرت اسمٰعیل علیہماالسلام کی اس عظیم قربانی وبندگی کی ایک ادنی مثال اور تاریخی یادگار ہے، تو مسلمان اس عمل کے عبادت ہونے میں کس طرح شک وشبہ کرسکتا ہے اور اس کے انجام دینے میں کس طرح پس وپیش ہوسکتا ہے، ہرگز نہیں ہرگز نہیں، اسی لئے سارے عالم کے مسلمان ہرسال جانور ذبح کرکے یہ سعادت حاصل کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
قربانی کے دن
اس قربانی یعنی جانور ذبح کرنے کے تین دن متعین ومقرر ہیں: ۱۰؍ ذی الحجہ یعنی عیدکے دن عید کی نماز کے بعد سے ۱۲؍ ذی الحجہ کے دن غروب آفتاب تک قربانی کی جاسکتی ہے۔
قربانی کا جانور
بکرا، بکری، ایک سالہ۔ گائے، بیل، بھینس دوسالہ۔ اونٹ پانچ سالہ ہونا ضروری ہے۔ ایک دن بھی عمرکم ہوتو اس کی قربانی جائز نہیں ہے۔ البتہ بھیڑ، دنبہ سال بھرکا تونہیں ہے مگر دیکھنے میں موٹا وفربہ ہونے کی وجہ سے سال بھرکے برابر معلوم ہوتا ہے تو اس کی قربانی جائز ہے۔ قربانی کا جانور بے عیب ہونا چاہئے، اور موٹا تازہ ہونا چاہئے۔ بکرا، بکری، مینڈھا، مینڈھی میں ایک آدمی کی طرف سے قربانی ہوسکتی ہے اور گائے، بیل، بھینس اور اونٹ میں 7 آدمی تک شریک ہوسکتے ہیں۔
مرحومین اور نابالغ بچوں کی طرف سے قربانی
اگرکوئی صاحبِ استطاعت اپنی واجب قربانی کے ساتھ ساتھ اپنے مرحومین اور نابالغ بچوں کی طرف سے بھی قربانی کرناچاہے تو اس کی بھی اجازت ہے، نابالغ بچوں کی قربانی کا ثواب اُن کے ماں باپ کو ملے گااور مرحومین کی قربانیوں کا ثواب اُن کی روحوں کو پہنچے گا جس طرح دیگر مالی عبادت کے ذریعہ ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے اسی طرح اس قربانی کی عبادت کے ذریعہ بھی ایصال ثواب ہوسکتا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دن فربہ، موٹے تازے، مینڈھے ذبح کئے اور فرمایا کہ یہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اور اُن کی اُمت کی طرف سے ہے۔ (احمد، ابوداؤد،ابن ماجہ دارمی)
ایک دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺ نے جانور ذبح کیا اور یہ فرمایا کہ یہ میری اور میری اُمت کے ہراُس فرد کی طرف سے ہے جنہوں نے قربانی نہیں کی ہے چنانچہ امام ابوداؤد اور ترمذی نے حضرت علیؓ کا یہ معمول نقل کیا ہے کہ آپ ﷺ کے بعد حضرت علیؓ قربانی کے دنوں میں دومینڈھے ذبح کرتے تھے اور یہ فرماتے تھے کہ ایک میری طرف سے ہے اور دوسرا رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ہے۔ لہٰذا صاحب گنجائش مسلمان اپنی طرف سے اپنی واجب قربانی اداکرنے کے ساتھ ساتھ مرحومین کی طرف سے یا نابالغ بچوں اور بچیوں کی طرف سے، یا، رسول اللہ ﷺ کی طرف سے یا خلفاء راشدین وصحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی طرف سے قربانی کرنا چاہیں تو ضرور قربانی کرسکتے ہیں۔