شیخ التجوید مولانا محمد عبدالغفور قادری
قربانی کا عمل اور اس کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ انسان کی تاریخ ہے۔ قربانی کا عمل اور رواج حضرت آدم علیہ السلام کے دور سے لے کر موجودہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم تک برابر جاری و ساری ہے۔ تاریخ پر نظر ڈالنے سے ہم کو پتہ چلتا ہے کہ سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں ہابیل و قابیل قربانی پیش کئے۔ اللہ تعالیٰ نے ہابیل کی قربانی قبول فرماکر اہلِ دنیا کو بتادیا کہ حق کو اللہ تعالیٰ پسند فرمایا اور ظلم و زیادتی کو رد کردیتا ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے دور کے اس عظیم واقعہ کے بعد سب سے زیادہ مشہور و مقبول واقعہ قربانی سے متعلق جو پیش آیا وہ حضرت سیدنا ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کا واقعہ ہے جس کو قرآن مجید نے تفصیل سے بیان فرمایا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ایک زمانہ تک اولاد عطا نہیں کیا اور تقریباً ساٹھ سال کی دعائوں کے بعد اولاد سے سرفراز فرمایا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی شکل میں ایک خوبصورت لڑکا عطا فرمایا۔ ابراہیم اپنے اس فرزند کو بہت زیادہ چاہنے لگے تو امتحاناً خواب کے ذریعہ حکم ہوا کہ اپنے اس اکلوتے بیٹے کو راہِ خدا میں قربان کردیں۔ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام حکم کو بجالانے کے لئے تیار ہوگئے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو میدان منیٰ میں لیجاکر قربانی کرنے سے پہلے اسماعیل سے دریافت کرتے ہیں کہ بیٹا میں نے خواب میں تم کو ذبح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ بتائو تمہاری کیا رائے ہے۔ تو وفادار فرزند، ہونے والے نبی خاتم الانبیاء کے دادا فرماتے ہیں اللہ نے آپ کو جو حکم دیا ہے اس کو کر گزریئے انشاء اللہ آپ مجھ کو صبر کرنے والا پائو گے جیسا کہ سورئہ الصّٰفّٰت میں آیا ہے۔ حضرت ابرہیم قربانی کے لئے اسماعیل کو زمین پر لٹاکر ذبح کرنے لگے اور اسماعیل کی قربانی کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتے تھے کہ
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
اللہ تعالیٰ اس قربانی کو قبول کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیٰا اِنَّا کَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْن اور وَفَدَیْنَاہُ بِذِبْحٍ عَظِیْمٍ۔ (سورئہ الصّٰفّٰت) یقینا تم نے خواب کو سچا کر دکھایا۔ ہم محسنین کو ایسا ہی بدلہ عطا فرماتے ہیں اور ایک عظیم دنبہ فدیہ میں دیا۔ عظیم بشارت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ اہل وفا اور اللہ کے احکامات کو ماننے والوں کو بہت بڑی خوشخبری عطا فرمایا۔ ابراہیم علیہ السلام کے اس عظیم واقعہ کے بعد بھی قربانی کا سلسلہ جاری تھا، مگر نیت اور طریقہ بدل گیا تھا لوگ انبیاء کرام کی تعلیمات سے دور ہوگئے تھے۔ نصاریٰ شیخ الاسلام کے نام پر اور کفار و مشرکین بتوں کے نام پر جانوروں کو قربان کرتے تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ جس طرح نماز صرف اور صرف اللہ کے لئے ادا کرتے ہیں اسی طرح قربانی بھی صرف اور صرف اللہ کے لئے ہی ہونی چاہئے۔ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ۔ قربانی کی تعریف یہ ہے کہ مخصوص دنوں یعنی ذی الحجہ کی ۱۰،۱۱، ۱۲ تاریخوں میں مخصوص جانوروں کو بہ نیت تقرب الٰہی ذبح کرنے کا نام قربانی ہے۔
قربانی کا حکم یہ ہے کہ ہر صاحب نصاب مسلمان مقیم پر واجب ہے۔ قربانی کی حقیقت یہ ہے کہ اس میں اپنی محبوب چیز کو اللہ کی راہ میں خرچ کریں لیکن اللہ تعالیٰ مال کو بصورت جانور اللہ کی راہ میں ذبح کرنے کا حکم عطا فرمایا۔ مسلمانوں جانور کی قربانی دے کر یہ اقرار کرتا ہے اور اللہ رب العزت کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر کے یہ کہتا ہے کہ اگر مال چاہے تو مال دوں گا اور اگر وہ جان کا مطالبہ کرے تو وہ بھی پیش کردوں گا۔
بہت سی روایتوں میں آتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ منورہ پہنچنے کے بعد سے ہر سال دو دنبوں کی قربانی کیا کرتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال قربانی کرتے تھے۔ اس حدیث کو امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔
قربانی کی فضیلت: احادیث مبارکہ میں قربانی کی بہت زیادہ فضیلت آئی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یوم النحر یعنی عید کے دن اللہ تعالیٰ کے پاس قربانی سے بڑھ کر کوئی نیک عمل زیادہ پسندیدہ نہیں ہے اور یہ قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگوں اور بالوں، کھروں کے ساتھ آئے گا اور قربانی کے جانور کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کے پاس مقبول ہو جاتا ہے۔ اس لئے تم خوش دلی سے اور خلوص سے قربانی کیا کرو۔ (ترمذی، ابن ماجہ)
ایک اور حدیث شریف میں ہے حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام نے دریافت کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ قربانیاں کیا ہیں؟ تو جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ ہم کو اس میں کیا ثواب ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا ہر بال کے بدلہ ایک نیکی ہے۔
قربانی کی فضیلت میں اور بہت سی روایتیں آئی ہیں۔ ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کے جانور کے کھر بال سینگ وغیرہ قیامت کے دن نامہ اعمال میں نیکیوں میں شامل کئے جائیں گے بلکہ احادیث میں یہ بھی ہے کہ قربانی کا جانور قیامت کے دن سواری کے لئے لایا جائے گا اور پل صراط پر قربانی کے جانور کی سواری ہوگی۔ جس طرح قربانی کرنے کی فضیلت ہے۔ اگر کوئی استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرے تو اس کے لئے بہت سخت وعید ہے اور وہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوگا۔ ابن ماجہ وغیرہ کتب احادیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس کے پاس قربانی کرنے کی گنجائش ہو اور وہ قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ کے قریب نہ آئے۔
یہ وعید بہت سخط وعید ہے کیونکہ عیدگاہ کو نماز عید کے لئے صرف اور صرف مسلمان جاتے ہیں اور جو مسلمان نہیں ہیں وہ عیدگاہ نہیں جاتے جس طرح عید کی نماز ہر مسلمان عاقل بالغ مقیم پر واجب ہے اسی طرح ہر صاحب نصاب مقیم مسلمان مرد و عورت پر قربانی واجب ہے۔
قربانی دینے والے کے احکامات: جب کوئی قربانی دینے کا ارادہ کرتے تو وہ ذی الحجہ کا چاند دیکھنے کے بعد سے قربانی ہونے تک اپنے ناخن اور بال نہ کاٹے۔ قربانی کے جانور کے متعلق یہ حکم ہے کہ بکرا بکری مینڈھا وغیرہ ایک سال کے ہوں۔ گائے بیل بھینس وغیرہ دو سال کے ہوں اور اونٹ پانچ سال کا ہو۔ بکرا مینڈھا وغیرہ ایک جانور ایک شخص کی جانب سے کافی ہوتا ہے اور بیل اور اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے کافی ہو جاتے ہیں۔
قربانی کے جانور کو اچھی طرح کھلاپلا کر موٹا تازہ رکھے۔ ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال جو دو قربانیاں کرتے تھے اس میں ایک اپنی جانب سے اور اہل بیت کی طرف سے ہوتی تھی اور دوسری قیامت تک کے آنے والے تمام مسلمانوں کی جانب سے ہوتی تھی‘‘۔
جنگلی جانوروں کی قربانی درست نہیں اگرچہ کہ وہ حلال جانور ہوں۔ ’’قربانی کے گوشت کے تین حصے کر کے ایک حصہ رشتہ داروں کو اور ایک حصہ غرباء کو اور ایک حصہ اپنے لئے رکھ لینا افضل و بہتر ہے۔ اس میں کمی زیادتی ہوجائے تو قربانی میں کچھ اثر نیں پڑھتا۔جس جانور کی قربانی کی جارہی ہے وہ جانور فربہ اور دیکھنے میں خوبصورت ہو۔ اس کے اندر عیب نہ ہو۔ قربانی کے جانور میں عیب یہ ہے کہ اس کی دم کٹی ہوئی نہ ہو اور کان ایک تھائی سے زیادہ کٹا ہوا نہ ہو اور سینگھ جڑ سے ٹوٹی ہوئی نہ ہو۔ اور ایک آنکھ مکمل گئی ہوئی نہ ہو اور بیل بھینس وغیرہ ہوتو زبان کٹی ہوئی نہ ہو۔ اسی طرح اتنا کمزور ولاغر دبلا پتلا نہ ہو کہ وہ قربان گاہ تک چل نہ سکے۔ ایسے عیب دار جانور کی قربانی درست نہیں۔ قربانی اپنی جانب سے تو واجب ہے۔ اپنے نابالغ بچوں کی طرف سے قربانی دینا چاہیں اور آپ کے پاس گنجائش ہے تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے۔ اسی طرح ایام قربانی میں اپنے مرحومین کی جانب سے ایصال ثواب کے طور پر قربانی کرنا بہتر ہے‘‘۔