(یاد کرواس وقت کو) جب سورج لپیٹ دیا جائے گا۔ اور جب ستارے بکھر جائیں گے۔ اور جب پہاڑوں کو اُکھیڑ دیا جائے گا۔ اور جب دس ماہ کی حاملہ اونٹنیاں ماری ماری پھریں گی۔ (سورۃ التکویر۔۱تا۴)
وقوع قیامت کے وقت جو ہولناک تغیرات رونما ہوں گے ان کا ذکر کیا جا رہا ہے، تاکہ لوگ خواب غفلت سے آنکھیں کھولیں، اللہ تعالی کی اطاعت و فرماں برداری اختیار کریں، تاکہ اس روز انھیں اپنے اعمال پر پریشانی اور پشیمانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
نظام شمسی میں آفتاب کی اہمیت کسی سے مخفی نہیں، جب اُبھرتا ہے تو اس کی کرنیں اندھیروں میں ڈوبی ہوئی دنیا کو آناً فاناً منور کردیتی ہیں۔ اس کی حرارت سے زمین تانبے کی طرح تپ جاتی ہیں، لیکن اس روز اس کی نور افشانی کرنے والی کرنیں، اس کے ارد گرد لپیٹ دی جائیں گی، اس کی تیز رفتار شعاعوں کو زنجیر بپا کردیا جائے گا اور جب یہ منبع نور بے نور ہوجائے گا تو اس وقت جو اندھیرا پھیلے گا، وہ کس قدر گہرا اور کتنا بھیانک ہوگا، اس کا صرف تصور ہی ہوش ربا ہے۔
سورج کے بعد ستاروں کی حالت زار بیان کی جا رہی ہے کہ وہ تیزی سے ٹوٹ ٹوٹ کر بکھر جائیں گے۔ وہ قانونِ کشش جو ہر ایک ستارہ کو اپنے مقام پر اور ہر ایک سیارہ کو اپنے مدار میں روکے ہوئے ہے، وہ قانون منسوخ کردیا جائے گا، ستارے اپنی اپنی جگہ سے ٹوٹ کر بکھر جائیں گے۔ اسی طرح کشش ثقل بھی فنا ہو جائے گی، پہاڑوں کا وزن باقی نہیں رہے گا، ہواکے جھونکے روئی کے گالوں کی طرح انھیں فضاء میں اُڑانے لگیں گے، انجام کار ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہے گا۔