اور نہیں بھیجا ہم نے آپ سے پہلے کوئی رسول اور نہ کوئی نبی مگر اس کے ساتھ یہ ہوا کہ جب اس نے کچھ پڑھا تو ڈال دئیے شیطان نے اسکے پڑھنے میں (شکوک) پس مٹا دیتا ہے اللہ تعالیٰ جو دخل اندازی شیطان کرتا ہے …(سورۃ الحج۔۵۲ )
صحاح ستہ اور دیگر حدیث کی مشہور کتابوں میں اس کا نام و نشان تک نہیں اس لیے اس کو ردی چیز کی طرح پھینک دینا ضروری ہے ابن حیان فرماتے ہیں کہ اسی لیے میں نے اپنی تفسیر کو اس کے بیان سے آلودہ نہیں کیا مجھے ان لوگوں پر حیرت ہے کہ انہوں نے اپنی تالیفات میں اس واقعہ کو لکھنے کی کیسے جسارت کی حالانکہ قرآن کریم کی ان آیات کو وہ تلاوت کرتے ہیں اسی سورۃ النجم کے آغاز میں ہے : ’’یعنی میرا محبوب نہ گمراہ ہوا نہ بھٹکا وہ تو اپنی خواہش سے بات بھی نہیں کرتا۔ وہ وہی بات کہتا ہے جو اس کی طرف وحی کی جاتی ہے‘‘۔ ان روشن آیات کی موجودگی میں یہ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ اسی سورۃ میں ایسے قبیح کلمات زبان پاک سے نکلے ہوں۔ دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو یہ اعلان کرنے کا حکم دیا : ’’ آپ کہہ دیجئے کہ میری یہ مجال نہیں کہ میں اللہ تعالیٰ کے کلام میں اپنی مرضی سے ردو بدل کر دوں۔ میں تو صرف وحی کی اتباع کرتا ہوں‘‘۔ اللہ تعالیٰ نے واضح الفاظ میں یہ اعلان کر دیا: ’’اور اگر وہ ہم پر ایک بات بھی اپنی طرف سے بنا کر کہتے تو ضرور ہم ان سے بقوت بدلہ لیتے۔ پھر ان کی رگ دل کاٹ دیتے‘‘۔ کیا اس ارشاد کے بعد اس چیز کا گمان بھی کیا جاسکتا ہے (ان کے علاوہ کئی اور آیات بھی انہوں نے پیش کی ہیں) ۔ پھر فرماتے ہیں عقلی طور پر بھی یہ روایت من گھڑت ہے۔ کیونکہ اگر ایسا ہونا ممکن ہوتا تو تمام احکام، آیات اور سارا دین مشکوک ہو جاتا۔ (ملخصاً البحر المحیط)۔ … جاری ہے