کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ تعالی اتارتا ہے آسمان سے پانی، پس ہم نکالتے ہیں اس کے ذریعہ طرح طرح کے پھل جن کے رنگ مختلف ہوتے ہیں، اور پہاڑوں سے بھی رنگ برنگ ٹکڑے ہیں کوئی سفید، کوئی سرخ، مختلف رنگوں میں (کوئی شوخ کوئی مدھم) اور بعض حصے سخت سیاہ۔ (سورۂ فاطر۔۲۷)
اللہ تعالی کی قدرت کی بوقلمونیوں کا ذکر فرمایا جا رہا ہے۔ ایک زمین ہے اور ایک ہی پانی، لیکن پھلوں کی قسمیں گنی ہی نہیں جاسکتیں۔ رنگ، ذائقہ اور مہک سب کی الگ الگ خصوصیات اور اثرات بھی ایک دوسرے سے یکسر جدا جدا۔ اس یکسانی میں ایسی نیرنگی، حکمت ربانی کی کتنی بڑی دلیل ہے۔
مختلف پہاڑوں کی بناوٹ، ان کی بلندی و پستی میں قدرت ربانی کے صدہا جلوے نظر آرہے ہیں۔ ذرا ان کے رنگوں کو ملاحظہ فرمائیے، کہیں تو بالکل سفید دھاری چلی گئی ہے، کہیں رنگت سرخ ہے اور سرخی بھی ایک جیسی نہیں، اس رنگ میں بھی کئی رنگ ہیں۔ کوئی ہلکا سرخ، کہیں گہرا عنابی، کہیں گلابی مائل اور کہیں سیاہ ہے تو ایسا سیاہ کہ بس حد ہی ہو گئی۔ ’’جددٌ‘‘ کا معنی طرائق: راستے بھی کیا گیا ہے۔ یعنی پہاڑوں کا اپنا رنگ ہے، لیکن ان کی گھاٹیوں میں سے جو راستے گزرتے ہیں، ان کی رنگتیں علحدہ علحدہ ہیں۔ اور بعض نے ’’جددٌ‘‘ کا معنی قطعٌ ٹکڑے کیا ہے۔ یعنی پہاڑوں کے مختلف حصوں کے مختلف رنگ ہیں۔ یعنی جب کسی چیز کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے تو کہتے ہیں ’’جددۃ‘‘۔