مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیمؔ
ماہ رمضان تو وہ مہینہ ہے جس میں قرآن پاک نا زل کیا گیا جو لو گوں کے لئے ہدایت ہے اور جس میں ہدایت کی کھلی نشانیا ں ہیں اور جو حق و باطل میں فرق و امتیاز کر نے والا ہے (۲؍۱۸۵) قرآن مجید کا نزول چونکہ رمضان المبارک میں ہوا اس لئے اس کے شکرانہ میں اس مبارک مہینہ کے روزے امت مسلمہ پر فرض کئے گئے پھر رمضان المبارک میں بھی ایک خاص رات میں قرآن پاک کے نازل ہو نے کا ذکر خود قرآن پاک کی ایک سورت سورۃ القدر میں فر مایاگیا۔
قرآن پاک اللہ سبحانہ کا کلام اور اس کی قدرت باہرہ کا ایک عظیم کرشمہ اور معجزہ ہے ، اس کلام بلاغت کی شان یہ ہے کہ وہ حق و باطل میں فرق کر نے کا ایک اہم خدائی معیار ہے ، اس لئے اس کے نزول کیلئے مبارک اور قدر و عظمت والے مہینہ اور ایک مبارک اور پر عظمت اور قدر والی رات کا انتخاب کیا گیا ، یہ مبارک کلام لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر ماہ رمضان کی قدر والی رات میں نازل کر دیا گیا اور بیت المعمور یا بیت العزۃ میں اس کو رکھ دیا گیا پھر حسب ضرورت تئیس سال تک ناز ل ہو تا رہا ، ایک تحقیق یہ بھی ہے کہ رمضان المبارک میں قرآن پاک کے نزول کا آغاز ہوا ،وحی کا آغاز سورۃالعلق کی ابتدائی آیات سے ہوا جب کہ رمضان کا مہینہ اور قدر والی رات تھی ، اور اس وقت سیدنا محمد رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غار ِ حرا میں ذکر و فکر اور مراقبہ الہی میں مصروف تھے، اس مناسبت سے قرآن پاک اور رمضان المبارک کے درمیان بڑا گہرا روحانی تعلق و ارتباط ہے ، حدیث پاک میں وارد ہے کہ رمضـان البارک کی ہر رات میں جبریل امین علیہ السلام خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو تے اور قرآن پاک کا دور ہو تا ،(بخاری)
یہ تو ہر رمضان پاک کا معمول تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس سال دنیا سے پردہ فر ما لیا اس آخری رمضان میں قرآن پاک کے دو دور ہوئے قرآن پاک اور رمضان المبارک کے درمیا ن خصوصی مناسبت کی وجہ حدیث پاک میں فرمایا گیاکہ روزہ اور قرآن دونوں بندہ کی سفارش کرینگے، روزہ کہیگا کہ بارالہ میں نے اس بندہ کو دن تمام تیری رضا کیلئے کھانے پینے اور جائز طبعی خواہشات کی تکمیل سے روکے رکھا ،اس بندہ کے حق میں میری سفارش کو قبول فر ما لے ، اور قرآن کہیگا کہ میں نے اس کو رات کے لمحات میں نیند کی لذت لینے سے رو کے رکھا اس لئے اس کے حق میں مولی میری سفارش قبول فر ما لے، اللہ سبحانہ اس بندہ کے حق میں ان دونوں کی سفارش کو قبول و منظور فر ما لینگے۔
اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی کیلئے روزہ رکھنے والے اور راتوں کو نماز تراویح و دیگرنوافل میں قرآن پاک تلاوت کر نے والے اور سماعت کر نے والے کیسے خوش نصیب ہیں، جن کے حق میں روزے اور قرآن کی شفاعت قبول کی جائے گی ، حشر کے وحشت ناک ماحول میںجب کہ ہر ایک کو اپنی پڑی ہو گی اور کوئی کسی کا یار و مدد گار نہیں ہو گا ایسے میں روزوے اور قرآن کی شفاعت کتنا بڑا سہارا ہونگے ،مصیبت کی سخت گھڑیوں میں اس سے کیسی ڈھارس بندھینگی اور کیسی روحانی مسرت و شادمانی نصیب ہو گی اور کیسی طمانیت کا سامان ہو گا اسکا کوئی تصور اس دنیا میں نہیں کیا جاسکتا، یہ عقدہ تو عالم آخرت ہی میں کھل سکے گا ۔
اس نعمت عظمی کے حصو ل کیلئے ماہ رمضان میں روزوں کا کا مل اہتمام حسب مو قع رات و دن تلاوت قرآن و سماعت قرآن کا التزام بالخصوص نماز تراویح میں اس کلام مقدس کا سننا اور سنانا باعث نزول رحمت اور قبر و حشر میں حصول شفاعت کا موجب اور باعث فرحت و سکون ہوگا۔اس کلام ہدایت کا تعارف خود قرآن پاک کے آغاز میں’’ ذٰلک الکتاب لا ریب فیہ‘‘ سے کر وا یا گیا ہے یعنی اس کے کتاب اللہ ہو نے اور صحیفہ ہدایت ہو نے میںذرہ برابر بھی کوئی شک و شبہ نہیں ، یہ کلام ہر طرح کے عیب و نقص سے پاک ہے ، اس کے کلام الہی ہو نے کا ثبوت خود اسکی ہر ہر سطر بلکہ ہر ہر لفظ سے ثابت ہے ، اس کی عدیم المثال فصاحت و بلاغت اور اس کلا م کی عدیم النظیر ندرت ،اس میںبیان کردہ موضوعات کی صداقت و جامعیت اور آئندہ قیامت تک اور قیامت کے بعد ہو نے والے سا رے احوال کی کا مل ترین وضاحت ، سابقہ امتوں اور سابقہ انبیاء کرام علیہم السلام کے قصص و واقعات اور انسانیت کیلئے اس میں پیغام ِ عبرت و نصیحت ،یہ و ہ سارے ایسے حقائق ہیں جو اس کے کلام الہی ہو نے پر دال ہیں ، تعصب و عناد کو دل و دماغ سے دور کر دیا جائے تو پھر اس کو کلام الہی مانے بغیر کوئی چارہ کا ر ہی نہیں ، اس کے منزل من اللہ ہو نے پر کسی طرح کے شک و شبہ کی گنجائش کے نہ ہو نے کی خو د قرآن نے اس طرح تصدیق کی ہے ۔’’ تنزیل الکتاب لا ریب فیہ من رب العالمین ‘‘(۳۲ ؍ ۲)
قر آن تو ساری انسانیت کو اصلاح اعتقاد و اصلاح اعمال کی دعوت دیتا ہے ،جن اعتقادات حقہ کی اس نے دعوت دی ہے وہ تو بالکلیہ بنیادی صداقتوں پر مبنی ہیں، جن پر یقین و ایمان سے قلب و روح کو پا کیزگی ملتی ہے ، طمانیت و تازگی حاصل ہو تی ہے ، فرحت و انبساط سے سینے بھر جاتے ہیں ، ایسے پاکیزہ انسانوں کو اعمال خیر کی تو فیق ملتی ہے ، نیکی وخیر کی طرف خود بخود ان کے قدم اٹھنے لگتے ہیں ، اعتقادات کی اصلاح سے اعمال کی اصلاح کا راستہ کھلتا ہے ، اس کتاب ہدایت میں بیان کردہ سارے حقائق اور احکام و مسائل سے یو ںتو ساری انسانیت کی فلاح و نجات وابستہ ہے ،’’ ھدی للناس و بینٰت من الھدی والفرقان‘‘ سے یہ بات واضح ہے ،توحید و رسالت ،معاش ومعاد،سب سے متعلق واضح ،روشن اور کھلے کھلے بیانات دلِ بینا کیلئے تو ایک روشنی کا چراغ ہیں،خوش نصیب ہیں وہ جن کو دلِ بینا کی نعمت نصیب ہے ،اور جن کو نصیب نہیں ہے ان کو یہ نعمت ضرور اللہ تعالی سے مانگ لینی چاہئے ،یہ نعمت بھی وہی دے سکتا ہے، دل کا نور نہ ہو تو آنکھ کا نور کا فی نہیں۔
دل ِ بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
یہی وجہ ہے کہ دل کے اندھے اس سے روشنی حا صل نہیں کر سکتے، اس مبارک کلام کے انوار و فیوضات سے صحیح معنی میں وہی اکتساب فیض کر سکتے ہیں جو اللہ سبحانہ پر ایمان رکھتے ہیں ، اور اسی سے ڈرتے ہیں ،امید و رجا بھی اسی سے رکھتے ہیں ، روح کی تشنگی بجھا نے کیلئے اس آب حیات (قرآن) سے سیرابی کے ذوق و شوق سے جن کے سینے معمور ہیں ، نیکی و سچائی کی طلب ،منکرات و فواحش سے طبعی تنفر ، اس کی بارگاہ میں حضوری کے خوف سے لرزاں و تر ساں ،روز حشر اللہ سبحانہ کے حضور جواب دہی کے تصور سے سر شار بندے ہی اس الہی چشمہ صافی سے فیضیاب ہو سکتے ہیں ، ’’ھدی للمتقین‘‘ میں اسی حقیقت کا بیان ہے ،متقی بندے ہی حقیقت میں اس کلام ہدایت کے نور کو اپنے سینے میں جذب کر تے ہیں ، وہی سینے کے انوار ان کے اعضاء و جوارح سے جھلکتے ہیں۔
حق و صداقت کی طلب سے محرومی، عناد و دشمنی ،گمراہ آباء و اجداد وگمراہ مذہبی رہنماوں کی اندھی تقلید اور اس فکری کو تاہی پر ضد و ہٹ دھرمی ،ایک انسان کو اس کلام ہدایت کے فیو ضات سے محروم کر دیتی ہے ، قرآن پاک کے نو ر سے محروم افرا د کی مثال سورہ بقرہ آیات ۱۷ تا ۲۰ ، میں دی گئی ہے۔
اللہ سبحانہ نے حضرت سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کتاب ہدایت نازل فر ما کر اسلام کا چراغ اس دنیا میں روشن کیا ہے ، جن کے دل بے نور ہیں وہ اس روشن چراغ سے کوئی روشنی حاصل نہیں کر سکیں گے ، ان کی مثال نا بینا انسان کی طرح ہے ، ،اگر کو ئی ان کے آگے کوئی مشعل رو شن کر دے تو ان کو اس کا کوئی فائدہ نہیں ، سورج کا نو ر تو سارے عالم کو روشن کر دیتا ہے ،اس کی روشنی سے کوہ و غار ، صحرا و جنگل ،آبادی و ویرانے سب روشن ہو جاتے ہیں ، دن کا اجالاایک بینا کو تو فائدہ د ے سکتا ہے، لیکن نا بینا کو اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیںہو تا ، آنکھ کے نو ر سے محروم انسان کیلئے روشنی و تاریکی دونوں برابر ہیں۔قرآن تو حق کی روشنی کا ایک عظیم مینار ہے ،حق و صداقت کی سچی طلب و تڑپ رکھنے والوں کیلئے اس سے رو شنی حاصل کرنا آسان ہے ۔
ارشاد باری ہے یہ قرآن تو وہ راہ دکھاتا ہے جو با لکل درست و سیدھی اور سچی ہے ، اور ایمان والوں کو جو اعمال صالحہ کا توشہ تیار کر نے میں لگے رہتے ہیں ان کو بڑے اجر کی بشارت دیتا ہے ،(۱۷؍ ۹) قرآن کے مخاطب چونکہ سارے انسا ن ہیں ،اس لئے ایمان والوں کا فرض ہے کہ وہ پیغام ربانی کو اس عالم میں عام کریں اور اس کے نور سے محروم سینوں کو اس کے نو ر سے روشن و منور کر نے کی تا دم زیست جد و جہد جاری رکھیں۔