محمد عبد المقتدر اظہر رشادی
آج کل مسلم معاشرہ میں بے دینی، بے عملی اور بد عملی کا سیلاب امڈ پڑا ہے۔ روزانہ کئی جرائم و حادثات کا ارتکاب ہورہا ہے، جس کی بڑی وجہ قرآن و حدیث اور اسوۂ ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے ناواقفیت ہے ۔ مسلم مرد و خواتین خاص طور پر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں میں بڑھتی ہوئی جہالت اور درندگی، جس کا تذکرہ آئے دن اخبارات کی سرخیوں میں ہوتا رہتا ہے۔ جب سے قوم و ملت نے یا امت کے دعویدار رہنماؤں اور قائدین نے دینی تعلیم سے دوری اختیار کی ہے اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قربت کی بجائے دوری پیدا کرنے والی دنیوی اور عصری تعلیم کو سب کچھ سمجھ لیا ہے، قوم میں طرح طرح کی بداعمالیاں اور برائیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ جب سے ہم نے حضرات صحابۂ کرام، اولیائے عظام اور اپنے اسلاف کی سیرت و صورت سے منہ موڑ کر ماڈرن ماحول کو غیروں کی تہدیب کو، باغیان خدا و رسول کے تمدن کو، دشمنانِ دین و ایمان کے مکرو فریب کو اپنا کار ساز و کار فرما گردانا ہے، اسی وقت سے ہمارے درمیان ظلم و ستم اور جور و جبر، بے جا سلوک، شکوک و شبہات، طعن و تشنیع،گالی گلوج مار توڑ وغیرہ وغیرہ خباثتوں کا بازار گرم ہے، جو اس نئی تہذیب کا خاص انعام اور اس ماڈرن ماحول کا خصوصی تحفہ ہے۔
جب کہ مسلم رہنماؤں، قائدین اور خاص طور پر والدین و سرپرستوں کی مذہبی اور دینی ذمہ داری ہے کہ اپنی آل اولاد کو ایسی تعلیم سے جوڑیں اور انہیں ایسی تعلیم و تربیت سے آراستہ کریں، جو ان کے اخلاق و کردار کو شائستگی عطا کرے، ان کو مذہبی اقدار کا قدرداں بنائے، ان کے اندر خدا ترسی پیدا کرے، ان میں حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم، حضرات صحابہ کرام اور حضرات اولیائے عظام کی سی عادات و صفات پیدا کرے۔ انہیں اپنے بزرگوں اور اسلام کا سچا پیروکار اور متبع بنائے، خوش مزاج اور خوش خلق بنائے، ہر کام اور ہر عمل آخرت میں جوابدہی کے احساس کے ساتھ کرنے پر اُبھارے، اپنے بڑوں، بزرگوں، ماں باپ اور اساتذہ کا قدر داں بنائے۔ چھوٹوں اور ماتحتوں کیلئے انتہائی خیر خواہ، اپنوں اور پرایوں، اچھوں اور بروں سب کے ساتھ حسن سلوک کا پیکر اور حسن اخلاق کا خوگر بنائے۔
قوم و ملت کو واقف ہونا چاہئے کہ یہ سارے کمالات صرف اور صرف اسلامی تعلیمات کا ہی خاصہ اور نبوی ہدایات کا خلاصہ ہیں۔ مگر افسوس صد افسوس کہ ہم نے اپنی نسلوں کو ان تعلیمات سے محروم کردیا، جو امت محمدیہ کی حفاظت کی ضامن اور ملت اسلامیہ کی فلاح و نجات کی امین ہیں۔
امت کی اصلاح اور ملت میں اچھے انقلاب کے لئے ہمدردان قوم و ملت کو بیدار مغزی کے ساتھ آگے آنے کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر قائدین، رہنماؤں اور زعمائے قوم اپنی اس ذمہ داری کو محسوس کریں، سرپرست حضرات فکر مند ہوجائیں، خود پر اور ملت کے سادہ لوحوں پر ترس کھائیں۔ مسلم معاشرہ کو زہریلے اثرات اور مخرب اخلاق ماحول سے پاک و صاف کریں۔ موجودہ اور آئندہ نسلوں کو دینی تعلیم و تربیت سے آراستہ کرنے کی ہر ممکن تدبیر اور کوشش کریں۔ امت مسلمہ کو داغدار اور پراگندہ ہونے سے محفوظ رکھیں۔
حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان ہے کہ آخر زمانے میں بھی امت کی اصلاح صرف اور صرف اسی چیز سے ہوسکتی ہے، جس سے امت کے پہلے طبقہ کی اصلاح ہوئی ہے۔ یعنی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری تعلیم اور آپﷺ کے پیارے اسوہ ہی سے امت کی بہترین تربیت ہوسکتی ہے، لہذا تمام مسلم محلوں میں دینی تعلیمی ادارے قائم کرنا، بالخصوص غریب مسلمانوں کے دین و ایمان کی حفاظت کے لئے دینی تعلیم و تربیت کی سہولتیں فراہم کرنا اور تعاون کرنا علماء، دانشوروں، قائدین اور رہنماؤں کی بڑی بھاری ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن اور حدیث سمجھ کر پڑھنے اور دین کا فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)