قران

بربادی ہے (ناپ تول میں) کمی کرنے والوں کے لئے‘‘۔ (سورہ مطففین۔۱)
دور جاہلیت میں صرف عقائد میں ہی بگاڑ نہیں پیدا ہوا تھا، بلکہ معاملات اور کاروبار میں بھی بددیانتی اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ قرآن کریم نے صرف عقیدے کے اصلاح پر ہی زور نہیں دیا، بلکہ معاملات میں دیانت و امانت کی بھی تلقین کی ہے۔ اہل مکہ جن کا پیشہ ہی تجارت تھا، ان کے ہاں اس قسم کی خرابیاں اپنے شباب پر تھیں۔ اسی کاروباری بددیانتی سے باز آنے کی جب نصیحت کی تو اس کے لئے بڑا پرجلال انداز اختیار فرمایا کہ ’’ایسا کرنے والوں کیلئے ہلاکت و بربادی ہے اور ان کا مقدر رنج و اندوہ ہے‘‘۔ آخرت میں تو اس کی جو سزا ملے گی، وہ ملے گی، اس دنیا میں ہی اس کے برے اثرات ظاہر کریں گے، کاروبار کو ٹھپ کرکے رکھ دیں گے۔ جب لوگوں کو اس بددیانتی کا پتہ چلے گا تو کوئی گاہک اس کی دوکان کا رخ نہ کرے گا اور یہ سارا دن بیٹھا مکھیاں مارتا رہے گا۔ انجام کار غربت و تنگدستی اس کا مقدر بن جائے گی۔ صرف وہی تاجر کامیاب ہوتا ہے، جس کی دیانت داری پر لوگوں کو پورا اعتماد ہو۔
صرف اخروی کامیابی ہی نہیں، تمہاری دنیوی فلاح کا انحصار بھی اسی پر ہے کہ تم یہ خسیس حرکتیں چھوڑدو۔ قرآن کریم میں جا بجا اس فعل شنیع سے باز آنے کی تاکید کی گئی۔ حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کی تباہی کا جہاں تذکرہ ہے، وہاں بتایا گیا ہے کہ انھیں کاروباری بددیانتی کی پاداش میں برباد کردیا گیا۔ اس قسم کے جرائم کی پوری سزا تو قیامت میں ملے گی، لیکن ان کے برے اثرات اس دنیا میں بھی ظاہر ہوئے بغیر نہیں رہتے اور ان کی نوعیت اتنی سنگین ہوتی ہے کہ انسان کو دن میں ہی تارے نظر آنے لگتے ہیں۔