میں قسم کھاتا ہوں روز قیامت کی اور میں قسم کھاتا ہوں نفس لوامہ کی (کہ حشر ضرور ہوگا)۔ (سورۃ القیامۃ۔۱،۲)
تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ’’لَااُقْسِمُ‘‘ کا معنی ہے ’’میں قسم کھاتا ہوں‘‘ لیکن ’’لَا‘‘ کی تفسیر میں اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ ’’لَا‘‘ زائد ہے اور کلام کو مزمین و آراستہ کرنے کے لئے لایا گیا ہے۔ اہل عرب کے ہاں یہ استعمال عام ہے۔ بعض نے کہا کہ ’’لَا‘‘ ان کے انکار قیامت کا رد ہے۔ اہل عرب کے ہاں ’’لَا‘‘ سے پہلے کلام کا ابطال مقصود ہوتا ہے اور بعد میں قسم اٹھائی جاتی ہے اور اس کا فائدہ یہ ہے کہ قسم مؤکد ہو جائے۔
دوسری قسم نفس لوامہ کی کھائی جا رہی ہے۔ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک نفس لوامہ مؤمن کا نفس ہے، جو ہر وقت اپنی کوتاہیوں اور غفلتوں پر اپنے آپ کو ملامت کرتا رہتا ہے۔ صوفیۂ کرام کا ارشاد ہے کہ نفس سرکش کو نفس امارہ کہتے ہیں، جو امر کا مبالغہ ہے، کیونکہ وہ ہر وقت برے کاموں کا حکم کرتا رہتا ہے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ کی یاد میں کوشاں ہو جاتا ہے تو مولائے کریم کی خصوصی توجہ اور جذب سے اس پر اس کے اپنے عیوب و نقائص منکشف ہو جاتے ہیں، اس پر وہ پشیمان ہوتا ہے اور اپنے آپ کو برا بھلا کہتا رہتا ہے۔ اس نفس کو نفس لوامہ کہتے ہیں اور جب وہ ہر ماسوا سے قطع تعلق کرلیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر سے اس کا دل مطمئن ہو جاتا ہے تو اس کو ’’نفس مطمئنہ‘‘ کہتے ہیں۔ یہاں دو قسمیں کھائی گئیں، لیکن مقسم بہ مقدر ہے۔ ’’ای لَتُبْعَثُنَّ‘‘ کہ تم ضرور دوبارہ زندہ کئے جاؤگے۔