اور بتوں سے (حسب سابق) دور رہئے، اور کسی پر احسان نہ کیجئے زیادہ لینے کی نیت سے، اور اپنے رب (کی رضا) کے لئے صبر کیجئے۔ (سورۃ المدثر۔۵تا۷)
عقیدہ اور عمل کی ہر ظاہری اور باطنی قباحت سے حسب سابق احتراز کرنے کی تاکید ہو رہی ہے، کیونکہ ایک مبلغ کا کلام اس وقت تک مؤثر نہیں ہوسکتا، جب تک وہ خود ان برائیوں سے منزہ اور مبرا نہ ہو۔ فرمادیا وہ تمام گناہ جو اللہ تعالی کی ناراضگی اور عذاب کا باعث بنتے ہیں، جن میں سب سے بڑا گناہ بتوں کی پرستش ہے، ان سے کنارہ کش رہئے، ورنہ لوگ آپ پر زبانِ طعن دراز کریں گے اور تبلیغ کی کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہ ہوں گی۔
کیا ہی پیاری نصیحت ہے، کتنے اعلی ضابطۂ اخلاق کی تعلیم ہے۔ عام طورپر تو کسی کے ساتھ جب احسان اور بھلائی کی جاتی ہے تو یہ توقع ہوتی ہے کہ جب وقت آئے گا تو یہ مجھ سے بڑھ کر احسان کرے گا۔ لوگ وہاں ہی ایک روپیہ خرچ کرتے ہیں، جہاں کم از کم دو کی بازیافت کی امید ہوتی ہے۔ اللہ تعالی اپنے رسول مکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو حکم فرماتا ہے کہ ہدایت کا جو احسان آپ ان پر فرما رہے ہیں، معرفت الہی کی جو دولت آپ انھیں عطا فرما رہے ہیں، یہ بڑی بیش قیمت چیز ہے، لیکن بھولے سے بھی یہ خیال آپ کے دل میں کبھی نہ آنا چاہئے کہ آپ کے دست مبارک پر مشرف بہ اسلام ہونے والے اس احسان عظیم کا معاوضہ آپ کو دیں گے۔ آپ محض اپنے رب کے حکم کی تعمیل اور اس کی رضا کے لئے یہ کام کریں اور کسی انسان سے اس کے معاوضہ کی قطعاً توقع نہ رکھیں۔ آپ کا رب خود آپ کو اس کا اجر عظیم اور اجر غیر ممنون عطا فرمائے گا۔ ہر قسم کے لالچ یا منفعت سے بے نیاز ہوکر آپ دعوت حق کا فریضہ انجام دیں۔